ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
جلاوطنی سے ستارگانِ پختونخوا تک: افغان طالبہ فاطمہ کا خواب، ہمت اور تعلیمی جہدوجہد Home / بین الاقوامی,تعلیم,خیبر پختونخوا /

جلاوطنی سے ستارگانِ پختونخوا تک: افغان طالبہ فاطمہ کا خواب، ہمت اور تعلیمی جہدوجہد

سپر ایڈمن - 31/08/2025 324
جلاوطنی سے ستارگانِ پختونخوا تک: افغان طالبہ فاطمہ کا خواب، ہمت اور تعلیمی  جہدوجہد

قیام الدین ستوری

 

ایک ایسی دنیا میں جہاں سرحدیں، جنگیں اور پابندیاں لاکھوں انسانوں کے مستقبل کا تعین کرتی ہیں، وہاں ایک ایسی کہانی بھی ہے جو ہر رکاوٹ کو توڑ کر ابھرتی ہے۔

 

 حوصلے، جرات اور ذہانت کی کہانی،  یہ کہانی ہے فاطمہ بی بی کی، ایک 17 سالہ افغان لڑکی کی، جس کے تعلیم حاصل کرنے کے عزم نے اسے ہزاروں لڑکیوں کے لیے امید کی کرن بنا دیا ہے۔

 

فاطمہ کی زندگی کا سفر کٹھن حالات میں شروع ہوا جب فطمہ کے والدین اپنے بچوں کی حفاظت اور تعلیم کے لیے افغانستان چھوڑ کر پاکستان آگئے تھے، فاطمہ نے چکدرہ میں پرورش پائی۔

 

 پناہ گزین ہونے کے ناطے اسے مالی مشکلات، ثقافتی رکاوٹوں اور غیر یقینی قانونی حیثیت کا سامنا رہا، لیکن اس کے پاس ایک ایسا خواب تھا جسے کوئی مشکل بجھا نہ سکی ڈاکٹر بننے کا خواب۔

 

تعلیم کی راہ آسان نہ تھی اس کی کمیونٹی میں اکثر لڑکیاں غربت، روایتی پابندیوں یا افغانستان کی سیاسی صورتحال کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ دیتی تھیں جہاں آج بھی لڑکیوں کی تعلیم کو مسلسل خطرات لاحق ہیں ۔

 

لیکن فاطمہ کا خاندان اس کی صلاحیتوں پر یقین رکھتا تھا۔ انہی کے حوصلے سے اس نے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول، چکدرہ میں داخلہ لیا اور یہ ثابت کرنے کا عزم کیا کہ ذہانت کسی قومیت یا سرحد کی پابند نہیں۔

 

اس کی محنت نے جلد ہی رنگ دکھایا 2023 میں فاطمہ نے میٹرک کا امتحان شاندار کامیابی کے ساتھ پاس کیا 1100 میں سے 1043 نمبر حاصل کر کے اس غیر معمولی کامیابی پر اسے "ستارگانِ پختونخوا" میں شامل کیا گیا جو صوبے کے بہترین طلبہ کو دیا جانے والا اعزاز ہے۔ پناہ گزین لڑکی کے لیے یہ صرف تعلیمی کامیابی نہ تھی بلکہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اس کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔

 

لیکن فاطمہ یہیں نہ رکی اس کا جذبہ اسے مزید آگے لے گیا۔ اس نے چکدرہ کے "جینیس ماڈل کالج" میں پری میڈیکل تعلیم کے لیے اسکالرشپ ٹیسٹ دیا اور نہ صرف کامیاب ہوئی بلکہ سیکڑوں طلبہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کامیابی نے یہ پیغام دیا کہ اگر لگن ہو تو ہر رکاوٹ مٹ جاتی ہے۔

 

ایف ایس سی پری میڈیکل کے دوسرے سال میں بھی اس کی لگن نمایاں رہی۔ 36,700 طلبہ کے مقابلے میں اس نے دوسرا نمبر حاصل کیا ایسی کامیابی جس کا تصور بھی کم لوگ کرسکتے ہیں۔ یہ اعزاز اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ صرف ایک محنتی طالبہ نہیں بلکہ سائنس اور طب کی دنیا میں ابھرتا ہوا ستارہ ہے۔

 

اب فاطمہ کا اگلا ہدف MDCAT کا امتحان ہے، جو میڈیکل کالجز میں داخلے کا دروازہ ہے۔ لیکن اس کے لیے یہ امتحان صرف ڈاکٹر بننے کا ذریعہ نہیں یہ انسانیت کی خدمت کا خواب ہے۔ 

 

وہ بیماروں کا علاج کرنا چاہتی ہے، افغان لڑکیوں کے لیے مثال بننا چاہتی ہے جنہیں پڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔

 

فاطمہ کی کہانی صرف نمبروں یا رینکنگ کی نہیں بلکہ جدوجہد کی ہے۔ ہر مرحلہ ایک جنگ کی مانند رہا پناہ گزین ہونے کے طعنوں سے، افغان خواتین پر لگائی گئی پابندیوں سے، اور کل کی غیر یقینی صورتحال سے لیکن ہر مشکل پر اس نے ہمت کو ترجیح دی۔

 

اس کی کامیابی یہ یاد دلاتی ہے کہ تعلیم صرف کلاس روم اور امتحانات تک محدود نہیں یہ امید ہے۔ یہ لڑکیوں کو پروں کی مانند وہ طاقت دیتی ہے کہ وہ جنگ اور پابندیوں کے پنجرے سے آزاد ہو سکیں۔ فاطمہ میں ہزاروں افغان لڑکیاں اپنا عکس دیکھ سکتی ہیں وہ عکس جو یہ ثابت کرتا ہے کہ خواب کبھی ترک نہیں کیے جانے چاہئیں۔

 

فاطمہ کا خواب ہے کہ ایک دن افغانستان واپس جا کر وہاں کے عوام کی خدمت کرے۔ وہ دیہی علاقوں میں خواتین اور بچوں کے لیے کلینکس قائم کرنے کی خواہش رکھتی ہے جہاں علاج آج بھی ایک خواب ہے۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم کی آواز بننا چاہتی ہے تاکہ اپنی زندگی کی کہانی سے یہ پیغام دے سکے کہ علم کو کبھی دبایا نہیں جا سکتا۔

 

ایسے وقت میں جب افغان لڑکیوں سے تعلیم کا حق چھینا جا رہا ہے فاطمہ اس حقیقت کی زندہ مثال ہے کہ تعلیم ایک طاقت ہے۔ اس کی جدوجہد صرف اس کی اپنی نہیں بلکہ ہر اس لڑکی کی ہے جو مشکلات کے باوجود خواب دیکھنے کی ہمت کرتی ہے۔

 

فاطمہ کی کہانی جلاوطنی سے ابھرتی مزاحمت کی ہے ناامیدی میں پلتی امید کی ہے اور ہر رکاوٹ کو توڑتی ذہانت کی ہے۔ وہ صرف ایک طالبہ نہیں بلکہ افغان لڑکیوں کی صلاحیت کی علامت ہے اور اس کی مضبوطی یہ یقین دلاتی ہے کہ ایک دن اس کا نام صرف "ستارگانِ پختونخوا" میں ہی نہیں بلکہ طب کی دنیا کے روشن ستاروں میں بھی لکھا جائے گا۔

 

تاہم اس وقت اس کی تعلیم کو خطرہ لاحق ہے کیونکہ جاری ریپٹری ایشن (جبری واپسی) کے عمل کے نتیجے میں اسے افغانستان بھیجا جا سکتا ہے جہاں لڑکیوں کے لیے تعلیم پر پابندی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف فاطمہ کی تعلیمی جدوجہد کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ ان لاکھوں افغان لڑکیوں کی عکاسی بھی کرتی ہے جو اپنے مستقبل اور سیکھنے کے حق سے محروم ہو سکتی ہیں۔

 

ہم پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) اور حکومتِ پاکستان افغان لڑکیوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں اور انہیں تعلیم کے مواقع فراہم کرتے رہیں جیسا کہ اب تک ممکن رہا ہے۔ 

 

اس حق سے محرومی نہ صرف ان کی امیدیں بجھا دے گی بلکہ معاشرے کو ان کے باصلاحیت اور تعلیم یافتہ کردار سے بھی محروم کر دے گی۔

تازہ ترین