سیدہ قرۃ العین
آج کے دور میں ہم نے ایک عجیب تبدیلی دیکھنا شروع کر دی ہے، وہ مرد جنہیں کبھی طاقت، ذمہ داری، غیرت اور وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا، اب آہستہ آہستہ ایک نرمی اور نسوانی انداز اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ وہ مرد جو کبھی گھر کے ستون کہلاتے تھے، آج کل شہزادیوں جیسا سلوک چاہتے ہیں۔ ان کے مزاج میں ناز نخرے بات چیت میں بچپنا اور زندگی کے معمولات میں عورتوں جیسا باریک بینی کا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
یہ وہی مرد ہیں جنہیں کبھی محنت کش، صابر مضبوط اور خاندان کا سہارا ہونا چاہیے تھا لیکن اب وہ "بے بی، شونا، جیسے القاب کے ساتھ خوش ہوتے ہیں اور اپنی مردانگی کو خود ہی ہلکا کرتے جا رہے ہیں"۔
سوال یہ ہے کہ آخر مرد اتنے نازک اور نسوانی انداز کیوں اپناتے جا رہے ہیں؟ کیا یہ دور کے دباؤ کا نتیجہ ہے یا معاشرتی رویوں کی پیداوار؟ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے نوجوان لڑکے بالوں پر گھنٹوں لگاتے ہیں، ناخن بڑھاتے ہیں، گلابی کلر کے جوتے یا کپڑے پہن کر تصاویر بنواتے ہیں اور خود کو "کیوٹ" ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میک اپ کرتے ہیں بظاہر یہ بات معمولی لگتی ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے ایک وقت تھا جب مرد اپنی شکل و صورت پر زیادہ وقت ضائع کرنے کو عیب سمجھتے تھے۔ وہ اپنی شخصیت کو کردار گفتگو فیصلوں اور رویے سے منواتے تھے لیکن آج کے مرد اپنی پہچان فیشن سیلفیوں اور دکھاوے کے ذریعے کرانا چاہتے ہیں گورے رنگ کے دیوانے خود کو گورا کرنے پر تُلے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو اپنی صفائی اور شخصیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ لیکن صفائی اور ناز نخرے میں فرق ہوتا ہے۔ ایک مرد اگر آئینے کے سامنے گھنٹوں بال سنوارے ناخنوں کو آرٹسٹک بنائے یا روز روز بیوٹی پارلر کے چکر لگائے تو یہ مردانگی کی بجائے ایک نسوانی شوق لگنے لگتا ہے۔
اس میں توازن ختم ہو جاتا ہے جس مرد کو گھر کا ذمہ دار ہونا چاہیے وہ اپنی توانائی صرف اپنے سٹائل اور "کیوٹ لگنے" پر صرف کر رہا ہے اور یہی بات مزاج تک آ پہنچی ہے۔ آجکل مردوں سے زیادہ کوئی حساس نہیں انہوں نے تو لڑکیوں کو پیچھے چھوڑ دیا بات بات پر ناراض ہونا بلا وجہ کے نخرے دکھانا کہاں چلا گیا وہ مرد جو چٹان کی طرح مظبوط تھا جس میں استقامت تھی؟
ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ آج کل تعلقات میں بھی مرد شہزادیوں جیسا سلوک چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہر وقت لاڈ پیار ہو انہیں بار بار یقین دلایا جائے کہ وہ سب سے حسین ہیں ان کے نخرے برداشت کئے جائیں اور انہیں ہر حال میں فوقیت دی جائے ۔ یہ رویہ بظاہر معصوم لگتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے عورتوں کے کندھوں پر ایک اور بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔
مرد جو کبھی سہارا ہوتے تھے اب خود سہارا چاہتے ہیں !عورت کو جسے پہلے ہی اپنی ذات، بچوں اور گھر کو سنبھالنا ہوتا ہے، اب شوہر یا مرد دوست کے ناز نخرے بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ یوں عورت ایک سے زیادہ کردار ادا کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے جبکہ مرد اپنی اصل ذمہ داری سے دور ہو جاتے ہیں۔
کیا ایسا تو نہیں مرد اپنی ذمے داریوں سے تنگ آکر یہ رویہ رکھنے پر مجبور ہیں اور اگر ایسا ہے تو یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے ۔۔۔ کیا ہم نے مرد پر لامحدود بوجھ تو نہیں ڈال دیا۔۔۔؟
یا مردوں میں یہ تبدیلی آنے کی ایک بڑی وجہ میڈیا اور سوشل میڈیا ہے؟ آج ہر دوسرا نوجوان ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر ایسا مواد دیکھتا ہے جہاں مردوں کو میک اپ میں لمبے ناخنوں اور اسٹائلش بالوں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے۔ ان پر خوب تالیاں بجتی ہیں لائکس اور کمنٹس آتے ہیں نوجوان سمجھنے لگتے ہیں کہ یہی "کول" اور "ماڈرن" ہونا ہے۔
وہ حقیقی وقار اور کردار کی بجائے دکھاوے اور سٹائل پر توجہ دینے لگتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر ایک عام لڑکا بھی وہی انداز اپنانے لگتا ہے تاکہ اسے بھی شہزادیوں جیسا پیار اور شہزادوں جیسی شہرت ملے۔
دوسری وجہ معاشرتی دباؤ ہے گھر کے ماحول میں اکثر بیٹے کو یہ سکھایا ہی نہیں جاتا کہ وہ ذمہ داری اٹھائے، قربانی دے اور محنت سے نہ گھبرائے۔ اُسے ہر وقت ماں باپ اور بہن بھائی لاڈ پیار میں رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ زندگی کے مشکل میدان میں اترنے کے بجائے صرف نرم راستے ڈھونڈتا ہے، ایسے لڑکے بعد میں بیوی یا دوستوں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ انہیں مسلسل ناز و نخرے ملیں ان کی ہر خواہش پوری ہو اور ان کی غلطیوں کو بھی برداشت کیا جائے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ رویہ مستقبل کے لیے بہتر ہے؟ اگر مرد خود کو عورتوں جیسا نازک بنا لیں گے، تو گھر اور معاشرے کا بوجھ کون اٹھائے گا؟ اگر ہر دوسرا مرد صرف سٹائل اور نخرے میں وقت ضائع کرے گا تو پھر مشکل فیصلے کون لے گا؟ گھر کی حفاظت، والدین کا سہارا بیوی اور بچوں کے مسائل کا حل کون نکالے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مرد ہونا محض جسمانی طاقت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک کردار ہے، مرد وہ ہے جو ذمہ داری قبول کرے دوسروں کے لیے سہارا بنے اور اپنی ذات کو دوسروں کے آرام کے لیے قربان کرے مرد وہ ہے جو مشکل وقت میں ڈٹ جائے اپنے ناز نخرے پیچھے رکھ کر اپنے خاندان کو سکون دے مرد ہونا صرف بیبی، شونا جیسے الفاظ سے خوش ہونا نہیں بلکہ اپنے عمل سے یہ دکھانا ہے کہ وہ واقعی گھر کا ستون ہے۔
یہ بات بھی ضروری ہے کہ مرد اپنی شخصیت پر توجہ ضرور دیں اچھا لباس پہنیں صفائی رکھیں خوشبو استعمال کریں لیکن یہ سب اعتدال کے ساتھ ہو جب اعتدال ٹوٹ جائے تو وقار کی جگہ نزاکت آ جاتی ہے اور مردانگی کی جگہ نسوانیت ہمیں یہ توازن دوبارہ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ معاشرے کو ایسے مردوں کی ضرورت نہیں جو شہزادیوں جیسا سلوک چاہتے ہیں بلکہ ایسے مردوں کی ضرورت ہے جو اپنی عورت کو شہزادی بنا سکیں۔ جو خود نخرے نہ کریں بلکہ دوسروں کے نخرے برداشت کریں جو آئینے کے سامنے کم اور زندگی کے میدان میں زیادہ وقت گزاریں جو گھر اور معاشرے کو اپنے وجود سے مضبوط کریں یہی اصل مردانگی ہے۔