ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
ایک تو نقل مکانی کا دکھ اور دوسرا امداد کے نام پر عزت نفس کی پامالی! Home / بلاگز /

ایک تو نقل مکانی کا دکھ اور دوسرا امداد کے نام پر عزت نفس کی پامالی!

سپر ایڈمن - 22/08/2025 216
ایک تو نقل مکانی کا دکھ اور دوسرا  امداد کے نام پر عزت نفس کی پامالی!

آمنہ سالارزئی

 

اپنے گھر ہوتے ہوے بھی بے گھر ہونا کتنی دکھ کی بات ہے۔ باجوڑ  کے لوگوں کو  بدامنی کی وجہ سے اپنے گھروں میں  رہنا بھی نصیب نہیں ہورہا۔ حالیہ دنوں میں وہاں کے لوگ ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ ضلع باجوڑ کے تحصیل ماموند اور دیگر علاقوں میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے باعث لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔  بے بسی اور بے سروسامانی کی حالت میں اپنے گھروں سے نکلتے وقت  اور  امداد دیتے وقت اکثر ان کی تصاویر اور ویڈیوز بنا کے سوشل میڈیا پر شئیر کی جارہی ہے جس سے انکی عزت نفس مجروح ہورہی ہے۔

 

 جولائی 29 سے باجوڑ میں شروع ٹارگٹڈ آپریشن سےنقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ کئی علاقوں میں اہم بازار بند، شاہراہیں اور سڑکیں ویران ہے۔ باجوڑ کے اہم علاقہ خار میں واقع باجوڑ  سپورٹس کمپلکس میں آئی ڈی پیز کیلۓ کیمپس قائم کئے گۓ ہیں اس کے علاوہ یہ لوگ سکولوں اور کالجز میں بھی قیام پذیر ہورہے ہیں۔ 

 

 باجوڑ کے لوگ تو ابھی تک پچھلے جنگ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، لیکن جیسے ہی تھوڑی بہت ترقی ہورہی تھی اب وہ بھی متاثر ہوگی۔ لوگ پچھلے غموں کو بھول نہیں پائے کہ اب سر پر پھر سے جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ لوگ 2008 جنگ کی وجہ سے اپنے مسمار گھروں کو معمار کر کے دوبارہ ویران چھوڑنے پر مجبور ہوگۓ۔ باجوڑ کے لوگ تو کبھی خیموں میں زندگی گزارنے کے عادی نہیں تھیں لیکن یہ دوسری دفعہ خیمہ زنی پر مجبور ہوگئے۔ اب تو شاید ان کیلۓ اپنے گھر وعلاقے میں رہنا ایک خواب سا بن گیا ہے کیونکہ پتہ نہیں کب حالات خراب، کرفیو نافذ اور گھر کو الوداع کہنا پڑیں۔

 

جنگ اور بدامنی کی وجہ سے دیگر قبائلی اضلاع سمیت باجوڑ کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں اور ہمیشہ امن کی خاطر قربانی دی ہے۔ اب دوبارہ سےامن کیلۓ قربانی دے کر لاکھوں کی جائیدادیں حکومت کے کہنے پر چھوڑ آئے ہیں۔ یہ مانگنے والے لوگ نہیں اپنے گھربار، تیار فصلیں، کاروبار اور تعلیم سب کچھ چھوڑ کر نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں، اب باوقار طریقے سے انکی مدد کرنا حکومت کا فرض اور انکا حق بنتا ہے۔

 

نقل مکانی کرتے وقت باجوڑ کی عوام خاص کر خواتین کی ویڈیوز اور تصاور بنوانا اور سوشل میڈیا پر نشر کرنا ان کے دکھ و درد کو مزید بڑھانا ہے۔  وہ لوگ افراتفی اور بے بسی کی حالت میں ہوتے ہیں اور ایسے میں کچھ لوگ کیمرا فون استعمال کر کے انہیں ریکارڈ کرتے ہیں، ایسے حالات میں خاص کر خواتین کو میڈیا پر دکھانا ان کے روایات کی خلاف ورزی ہے۔ خبر پھیلانے اور وائرل کرنے  کی صورت میں کم از کم خواتین کو بلکل بھی میڈیا پر لانے سے گریز کریں۔

 

اس کے علاوہ مدد کرنے پر کچھ لوگ ان کے ساتھ سیلفیز بنواتے ہیں، تو کوئی ٹک ٹاک ریل بنا کر شیئر کرتے ہیں جس پر وہاں کے لوگ اس چیز سے کافی دکھی ہیں۔ اکثر لوگوں کی نیت بری نہیں ہوتی لیکن دوسروں کیلۓ وہ چیز کافی تکلیف دہ ہوسکتی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی خودداری کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اب ایسے حالات میں کم از کم ان کی خوداری کا تو لحاظ رکھیں، ان کے چہرے  دکھا کر خود کو مشہور اور اچھا ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں۔

 

 دنیا کو  ثبوت دکھانے اور مدد کیلۓ  پیغام دینے کیلۓ، امدادی سامان یا اور حقائق بھی دکھاسکتے ہیں۔ اس مشکل وقت میں کوئی مدد کرنی ہو تو ضرور کریں مگر اپنی اچھائی ثابت کرنے کیلۓ انکی تصاویر اور ویڈیوز بنانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ نہ کریں یہ وقت کسی پر بھی آسکتا ہے اگر خود پر یا آپنوں پر گزرے تو کیسا محسوس کرینگے۔ مدد کے نام پر ان کا تماشہ نہ بنایا جاۓ۔ اگر نیت اللہ کی رضا اور انسانیت کی خاطر ہو اور خلوص دل سے مدد کی جاے تو تسکین بھی ملتی ہے۔

 

حکومت، فلاحی ادارے اور عوام سے گزارش ہے نہ صرف باجوڑ کی عوام بلکے جہاں بھی ایسی بدامنی سیلاب یا کوئی بھی مصیبت ذدہ علاقہ ہو وہاں کے لوگوں کی پرائیویسی کو مدنظر رکھیں، اور بے جا  انکی تصاویر اور ویڈیوز وائرل کرنے سے گریز کریں۔