ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
بچوں کی موت سے جعلی عطیات تک؛سوشل میڈیا پر سیلاب کی جھوٹی کہانیاں Home / خیبر پختونخوا,عوام کی آواز /

بچوں کی موت سے جعلی عطیات تک؛سوشل میڈیا پر سیلاب کی جھوٹی کہانیاں

عبدالقیوم - 22/08/2025 570
بچوں کی موت سے جعلی عطیات تک؛سوشل میڈیا پر سیلاب کی جھوٹی کہانیاں

عبدالقیوم آفریدی

خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں حالیہ بارشوں، بادل پھٹنے اور تباہ کن سیلاب کے دوران سوشل میڈیا پر افواہوں، جعلی خبروں، ڈس انفارمیشن اور مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی ویڈیوز کا ایک طوفان برپا رہا، جس نے نہ صرف عوام میں افراتفری پھیلائی بلکہ امدادی کارروائیوں میں بھی رکاوٹیں پیدا کیں۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق عام صارفین کے ساتھ ساتھ معروف انفلوئنسرز اور میڈیا اداروں کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی اس عمل میں شریک نظر آئے، جن سے جھوٹی خبریں اور اے آئی پر مبنی ویڈیوز بڑے پیمانے پر شیئر کی گئیں۔ ٹی این این نے متعدد اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال اور فیکٹ چیکنگ کے بعد واضح کیا کہ ان میں سے زیادہ تر مواد جعلی اور گمراہ کن تھا۔

 

گزشتہ ہفتے ضلع بونیر میں آنے والے سیلاب کے دوران فیس بک اکاؤنٹ "ڈاکٹر محمد عفان قیصر" سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایک سکول میں موجود 150 بچے اور عمارت دونوں ہی سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں۔ اسی طرح "پاک نرسز ڈائری" پیج پر پوسٹ کیا گیا کہ ڈاکٹر سویرا پرکاش نے الخدمت فاؤنڈیشن بونیر کو 5 کروڑ روپے عطیہ کئے۔ تحقیقات سے دونوں دعوے جھوٹے ثابت ہوئے اور ڈاکٹر سویرا پرکاش نے ویڈیو بیان جاری کرکے خبر کی تردید بھی کی۔ اس کے علاوہ "عباس سنگین" نامی صارف کے اکاؤنٹ سے ایک پلازہ دکھانے والی ویڈیو شیئر کی گئی جسے پشاور صدر پلازہ کے سیلاب سے تباہ ہونے کے طور پر پیش کیا گیا۔ فیکٹ چیکنگ میں پتہ چلا کہ یہ ویڈیو دراصل سوات کے منگورہ بازار کی تھی۔

 

یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ ایک انفوگرافکس کے ذریعے صحافی سلیم صافی کے نام سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ "خیبر پختونخوا کے 90 فیصد جنگلات کاٹنے کے ٹھیکے عمر ایوب، علی امین گنڈاپور اور جنید اکبر گروپ کے پاس ہیں اور یہی سیلاب کے ذمہ دار ہیں۔" بعد ازاں تحقیق سے یہ خبر مکمل طور پر غلط ثابت ہوئی۔ سلیم صافی نے اپنے آفیشل "ایکس" اکاؤنٹ سے تردید کرتے ہوئے اسے فیک نیوز قرار دیا اور وضاحت کی کہ میرے نام سے پھیلائی جانے والی یہ جھوٹی خبریں عوام کو گمراہ کرتی ہیں۔

 

اسی دوران جعلی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئیں۔ ایک فیس بک صارف "راشد محمود" نے چند سیکنڈ کی ایک ویڈیو پوسٹ کی، جس میں برساتی نالے کے قریب ایک بچہ جھاڑیوں میں مسکراتا ہوا دکھائی دیا۔ کیپشن میں لکھا گیا کہ یہ "قدرت کا معجزہ ہے اور بچہ بونیر کے بشنوئی گاؤں میں سیلابی ریلے سے زندہ بچ گیا۔" ویڈیو میں بچے کے صاف ستھرے کپڑے اور محفوظ حالت نے شکوک پیدا کیے۔ انٹرنیٹ پر فیکٹ چیک کے بعد یہ ویڈیو مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی ثابت ہوئی۔

 

مزید برآں، انٹرنیشنل میڈیا ادارے "دی نیشنل" کے آفیشل فیس بک پیج پر ایک ویڈیو اپلوڈ کی گئی، جس میں کلاوڈ برسٹ اور بونیر میں تباہ کن سیلاب دکھایا گیا۔ لاکھوں افراد نے اسے دیکھا لیکن مقامی صحافی اظہار اللہ نے اس فوٹیج کو اے آئی سے تیار کردہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر جھوٹے مواد کا بازار تو گرم تھا ہی مگر افسوسناک طور پر ایک پاکستانی ٹی وی چینل نے بھی غیر مصدقہ ویڈیوز نشر کیں، جس سے عوام میں مزید الجھن پیدا ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ کئی حقیقی ویڈیوز بھی شیئر ہوئیں لیکن وہ دراصل پڑوسی ملک کے حالیہ سیلاب سے تعلق رکھتی تھیں، جنہیں خیبر پختونخوا کی تباہی سے جوڑ دیا گیا۔

 

امدادی کارروائیوں پر اس جعلی معلومات کے اثرات کے حوالے سے ریسکیو 1122 خیبر پختونخوا کے ترجمان بلال احد فیضی نے بتایا کہ کسی بڑے حادثے کے دوران ہمیں ہمیشہ فیک نیوز اور جعلی ویڈیوز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ سوات، باجوڑ اور بونیر میں سیلاب کے دوران بھی غیر مصدقہ پیغامات نے خوف پھیلایا اور مقامی افراد کے ساتھ ساتھ ہماری ریسکیو سرگرمیوں کو بھی متاثر کیا۔

 

 ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات ٹیمیں اصل ضرورت کی بجائے جھوٹی خبروں کے پیچھے بھیج دی جاتی ہیں، جس سے قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔ بلال فیضی نے خبردار کیا کہ تحقیق کے بغیر خبریں یا ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر نہ کی جائیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ریسکیو 1122 کو عام دنوں میں بھی ہزاروں فیک کالز موصول ہوتی ہیں، جن میں جھوٹے حادثات رپورٹ کئے جاتے ہیں، اور بڑے سانحات کے وقت ڈس انفارمیشن اس مسئلے کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔

 

میڈیا میٹر فار ڈیموکریسی کے بانی اور سی ای او اسد بیگ نے اس صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حادثے کے دوران جعلی خبریں اور ڈس انفارمیشن تیزی سے پھیلتی ہیں۔ مثال کے طور پر جہاز گرنے کے بعد فوری طور پر فیک ویڈیوز اور آڈیوز سامنے آجاتے ہیں، جنہیں صارفین محض توجہ اور ویوز حاصل کرنے کے لیے شیئر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہایت اہم ہے کہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے جیسے ادارے فوری طور پر عوام کو آگاہ کریں کہ جعلی معلومات گردش کر سکتی ہیں، لہٰذا صرف معتبر ذرائع پر بھروسہ کیا جائے۔

 

اسد بیگ نے کہا کہ آج کے دور میں ڈس انفارمیشن پھیلانا بہت آسان ہو گیا ہے، کیونکہ اے آئی اور ڈیپ فیک ٹولز کے ذریعے منٹوں میں جعلی ویڈیوز تیار ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بعض اوقات اصلی ویڈیوز کو بھی جھوٹا قرار دے دیا جاتا ہے، جس سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور نقصان بڑھ جاتا ہے۔ کئی مثالوں میں لوگ متاثرہ علاقوں کی ویڈیوز کو جعلی سمجھ کر نظرانداز کرتے ہیں اور پھر سفر کے دوران خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔

 

انہوں نے تجویز دی کہ سرکاری اداروں کو واضح طور پر بتانا چاہیے کہ کون سے آفیشل ذرائع معتبر ہیں اور کن پر یقین نہیں کیا جانا چاہیے۔ کورونا وبا کے دوران یہی ماڈل کامیاب رہا، جسے اب دیگر ہنگامی حالات میں بھی اپنانا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی ذرائع کی بھی نشاندہی کی جانی چاہیے، تاکہ اگر کوئی ویڈیو مثلاً گلگت سے آئے تو وہاں کے آفیشل اداروں سے اس کی تصدیق ممکن ہو۔ جب تک سرکاری اور میڈیا سطح پر مربوط حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی، اس مسئلے کا حل ممکن نہیں۔

تازہ ترین