عظمیٰ اقبال
حالیہ سیلاب نے سوات کی سرسبز وادی کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ منگورہ شہر کے مختلف علاقے، جن میں ملا بابا، لنڈیکس، بنگلہ دیش اور مکان باغ شامل ہیں، بدترین طور پر متاثر ہوئے ہیں اور روزمرہ زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیلاب کے نتیجے میں منگورہ میں اب تک 22 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، 100 سے زائد اسکول متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 3 مکمل طور پر منہدم ہو چکے ہیں، جبکہ تقریباً 3 ہزار گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ کئی روز گزر جانے کے باوجود متاثرہ گھروں کے اندر کئی فٹ تک کیچڑ موجود ہے۔ نہ پینے کے لیے صاف پانی ہے اور نہ کھانے کا سامان گھروں کے اندر کیچڑ اور گلیوں میں بدبو پھیلی ہوئی ہے۔
منگورہ کی رہائشی فاطمہ کا کہنا ہے ہمارے گھر میں اب بھی کیچڑ جمع ہوا ہے۔ ہم نے کئی بار نکالنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ اسے صاف کرنے کے لیے پانی درکار ہے، اور پانی ہے نہیں۔ موٹر کیچڑ میں دھنس چکی ہے اور سارا سامان بھی تباہ ہو گیا ہے۔ جب سیلاب آیا تو چھ سات فٹ پانی گھروں کے اندر داخل ہوا جس نے سب کچھ برباد کر دیا۔ ہم سب گھر والے صفائی میں لگے ہیں مگر پانی کی قلت کی وجہ سے یہ ناممکن ہے۔ حکومت صرف سڑکوں سے پانی نکال رہی ہے، گھروں پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔
تاہم دیگر متاثرہ علاقوں کے لوگ بھی انہی مسائل کا شکار ہیں۔ ان کے بقول ان کے پاس نہ کھانے کے لیے کچھ ہے اور نہ پینے کے لیے صاف پانی۔
ٹی این این کو بتاتے ہوئے صحافی غفران اللہ کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ شکایت کر رہے ہیں کہ ان کے گھروں میں پینے کا پانی اور کھانے کی اشیاء موجود نہیں ہیں۔ ان کا سب کچھ سیلاب کی نذر ہو چکا ہے۔
حکومت صرف ان لوگوں کو سہولت فراہم کر رہی ہے جو کسی نہ کسی طرح حکومتی اداروں تک رسائی رکھتے ہیں۔ ہم نے خود دیکھا کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی گلیوں اور گھروں کو صاف کر رہے تھے جبکہ انتظامیہ کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سخت پریشان ہیں اور انتظامیہ سے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔
اسی طرح سماجی کارکن اور صحافی حارث یوسفزئی بھی انتظامیہ کے کام سے مایوس نظر آ رہے ہیں ان کے مطابق ابھی تک متاثرین کو انتظامیہ کا کوئی عملی کردار نظر نہیں آ رہا۔ لوگ پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں اور کیچڑ کی وجہ سے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ جب سیلاب آیا تو چھ سات فٹ پانی گھروں میں داخل ہوا۔
لوگ صرف اپنی جان بچانے کے لیے چھتوں پر پناہ لینے میں کامیاب ہوئے، مگر گھروں میں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ کچھ متاثرین بالٹیوں میں پانی بھر کر صفائی کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن زیادہ تر بے بس ہیں۔
دوسری جانب اسسٹنٹ کمشنر بابوزئی طارق خان کا کہنا ہے کہ ہم متاثرین کی شکایات سے باخبر ہیں اور بہت جلد ان کے مسائل حل کیے جائیں گے۔ کسی کو بھی تنہا نہیں چھوڑا جائے گا اور تمام علاقوں میں سہولت پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔