سلمان یوسفزئی
خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کے علاقے قدر نگر میں 25 سالہ نور محمد کے حجرے میں فلاحی تنظیموں کے رضاکاروں اور علاقے کے لوگ جمع ہیں۔ فاتحہ خوانی کے بعد فلاحی اداروں کی جانب سے امداد دی جا رہی ہے جبکہ مقامی لوگ غمزدہ نوجوان کو تسلی دے رہے ہیں۔
تعزیت کے لیے آنے والے ہر شخص کی زبان پر یہی افسوس ہے کہ بونیر میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے نور محمد کے گھر میں خوشیوں بھری شادی کی تقریب کو غم اور ماتم میں بدل دیا ہے۔
نور محمد بتاتے ہیں کہ سیلاب سے ایک دن پہلے ان کے گھر میں شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں، خواتین نئی دلہن کو لانے کے لیے بے تاب تھیں لیکن 15 اگست کے خونریز سیلاب نے ان کی یہ خوشیاں چھین لیں۔
نور محمد کئی سال سے ملائیشیا میں مزدوری کر رہے تھے اور اپنی شادی کے موقع پر وطن واپس آ رہے تھے۔ تاہم فلائٹ تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سے وہ ایک دن بعد پہنچ سکے۔ وہ اپنے ساتھ نئی زندگی کے خواب لے کر آ رہے تھے مگر راستے میں یہ خبر ملی کہ ان کا پورا خاندان سیلاب کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گیا ہے۔
یہ سانحہ نور محمد کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑ گیا ہے۔ گفتگو کے دوران وہ بار بار خاموش ہو جاتے ۔ ان کی آنکھوں کے آنسو پچھلے پانچ دنوں میں خشک ہو گئے ہیں اور اب وہ صرف دل ہی دل میں رو رہے ہیں۔ اپنے حجرے کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں یہ کمرہ میرے لیے سجایا جا رہا تھا مگر اب دیواروں پر سیلابی پانی کے نشانات باقی رہ گئے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر وہ ایک لمبی سانس لے کر چپ ہو جاتے ہیں اور ان کا کزن دلاسہ دیتے ہوئے انہیں سینے سے لگا لیتا ہے۔
نور محمد کے گھر کے سامنے بڑے بڑے سیلابی پتھروں کے اس پار عبداللہ نامی شخص کا گھر ہے ،جہاں بھی فاتحہ خوانی جاری ہے۔ اس ہولناک سیلاب نے عبداللہ کی بیوی اور چار ننھے بچے چھین لیے ہیں۔ کمزور جسم اور غم سے نڈھال عبداللہ حال ہی میں سعودی عرب سے چھٹیاں گزارنے کے لیے گاؤں آئے تھے۔ ان کے گھر کے ایک کمرے میں اب بھی سیلاب کی مٹی اور کیچڑ پڑا ہے جہاں چپل اور سامان بکھرا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اس کائنات میں تنہا اور بے گھر رہ گئے ہیں۔
بونیر میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے درجنوں خاندانوں کو اجاڑ دیا ہے۔ متاثرین اب بھی بے قراری میں ہیں کیونکہ نہ تو ان کے پیاروں کی لاشیں مل رہی ہیں اور نہ ہی کوئی زندہ بچنے کی امید باقی ہے۔
پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بونیر میں اب تک 217 سے زائد لاشیں برآمد ہو چکی ہیں تاہم مزید لاشوں کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن بدستور جاری ہے۔
سابق ایم پی اے مفتی فضل غفور، جو ان دلخراش مناظر کے عینی شاہد ہیں، بتاتے ہیں کہ وہ خود اب تک 51 افراد کی لاشیں نکال چکے ہیں اور ان کے اجتماعی جنازے بھی ادا کروا چکے ہیں۔