رفاقت اللہ رزڑوال
"مجھے ورثاء نے ہسپتال سے ایک بچے کی موت کی خبر دی جب میں کور کرنے گیا اور ایزلائیو ریکارڈ کیا تو ہسپتال ایم ایس کے بندوں نے مجھے پکڑ کر کمرے میں بند کیا اور پھر میرے اوپر ایف آئی آر بھی درج کرائی"۔
یہ کہنا ہے خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے خیبرنیوز کے ساتھ وابستہ رپورٹر الف خان شیرپاؤ کا جنہیں 22 اپریل 2023 کو چارسدہ میں واقع ویمن اینڈ چلڈرن ہسپتال سے بچے کی والدین کی جانب سے خبر ملی کہ ان کا بچہ ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت سے وفات پاگیا اور اب وہ احتجاج کرنے جا رہے ہیں۔
صحافی الف خان کہتے ہیں کہ جیسے ہی میں اور میرے ساتھی رپورٹر رفاقت اللہ رزڑوال احتجاج کور کرنے پہنچیں تو ورثاء کا ہجوم ہسپتال کے احاطے میں اکھٹے ہوکر ہسپتال کے حکام کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے جسے ہم نے کور کر لیا مگر اسی دوران ہسپتال کے عملے نے ہمیں پکڑ کر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں لے گئے اور کئی اور گھنٹے تک حبس بے جا میں رکھا۔
الف خان کا کہنا ہے "اس وقت ایم ایس شدید غصے اور دھمکی آمیز لہجے میں یہ شکوہ کر رہے تھے کہ آپ بغیر اجازت کے ہسپتال میں کوریج کیوں کر رہے تھے، ساتھ میں میرے خلاف مقدمہ کی اندراج کی دھمکیاں بھی دی جس نے چند گھنٹوں بعد میرے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا"۔
ضلع چارسدہ کے تھانہ سٹی میں درج مقدمے کے مطابق ایم ایس چارسدہ نے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے کارسرکار میں مداخلت اور ہسپتال کی پرائیویسی متاثر کیا ہوا ہے۔
الف خان بتاتے ہیں کہ واقعے کے متعلق چارسدہ کے دیگر صحافیوں کو جب خبر موصول ہوئی تو انہوں نے مداخلت کرکے ہمیں چھڑالیا مگر ایک بوگس مقدمے میں ہمیں پھنسایا گیا۔
تاہم اس میں مقامی عدالت سے ضمانت حاصل کی اور چند ماہ بعد ٹرائیل کے بعد ضلعی انتظامیہ کی ثالثی پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے صلح کرائی اور عدالت میں راضی نامہ ہوکر کیس ختم ہوا۔
ان کا کہنا ہے "آج بھی میں سرکاری اداروں میں آزادانہ کوریج نہیں کرسکتا باوجود اس کے کہ ہسپتال میں کافی سارے مسائل موجود ہیں کیونکہ وہی ایم ایس آج بھی اُسی ہسپتال میں بطور ہسپتال سربراہ کام کرتے ہیں۔
پاکستان میں صحافیوں کی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم پریس فریڈم نیٹ ورک کے سال 2024 کے جاری کردہ ریکارڈ کے مطابق گزشتہ سال صحافیوں کو نظربند، 2 کے خلاف قانونی کاروائی اور 14 کے خلاف مقدمات کا اندراج ہوا ہے۔
تاہم 2025 کے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مئی 2024 سے اپریل 2025 تک پاکستان بھر میں پانچ صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے نتیجے میں قتل کئے گئے ہیں۔ جن مین تین کا تعلق سندھ اور دو کا خیبرپختونخوا سے تھا۔ اسی مدت میں 82 صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کو دھمکیوں، ہراسانی، گرفتاریوں اور قانونی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اعداد و شمار کے مطابق اسی عرصہ میں خیبرپختونخوا میں صحافیوں کے خلاف سب سے زیادہ 22 مقدمات درج کئے گئے، جبکہ 20 اسلام آباد، 18 پنجاب، 4 بلوچستان اور ایک مقدمہ جموں و کشمیر میں رپورٹ ہوا۔
خیبرپختونخوا میں صحافیوں کے خلاف قانونی کاروائیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے 92 نیوز سے وابستہ صحافی رحمان ولی احساس کے خلاف بھی ضلعی انتظامیہ نے مجرمانہ سازش، کارسرکار میں مداخلت، مسلح ہوکر ڈرانا دھمکانا، پراپرٹی کو نقصان پہنچانا اور سڑک بند کرنے کے الزامات میں دفعہ 188، 124 اے، 341، 342، 504، 506 اور 427 درج کئے گئے ہیں۔
رحمان ولی احساس نے الزام لگایا کہ وہ باجوڑ میں امن و امان اور عوامی مسائل پر مسائل پر رپورٹنگ کرتے رہتے ہیں جس سے انتظامی حکام ناراض تھے، "رپورٹنگ پر تو وہ میرے خلاف براہ راست کاروائی نہیں کرسکتے تو انہوں نے مقدمے میں مجھ پر ایک سیاسی پارٹی کے کارکن ہونے کا الزام لگا کر داغ دار بنا دیا"۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق صحافی رحمان ولی اس وقت مفرور ہے اور ان کے خلاف مقامی عدالت نے اگلی سماعت میں پیش ہونے کا حکم دیا بصورت دیگر انہیں پولیس کے ذریعے گرفتار کرکے پیش کرنے حکم شامل ہیں۔
رحمان ولی کا کہنا ہے کہ آخری پیشی گزشتہ ماہ کے 28 تاریخ کو ہوئی اور مقامی جج نے ایک اور تاریخ دے کر سماعت ملتوی کر دیا۔ رحمان ولی کہتے ہیں کہ وہ عدالتی کاروائی سے مکمل طور پر بے خبر رکھا گیا مگر کیس میں میرے وکیل نے وکالت نامہ جمع کراکر اگلی سماعت میں پیش ہونگا۔
"یہ انتظامیہ کی جانب سے اوچھے ہتکھنڈے ہیں جس پر مجھے دبانے کی کوشش کرتے ہیں مگر صحافت میں یہ مقدمات اور گرفتاریاں معمول کی بات ہے، اس سے مجھے کوئی ڈر نہیں ہے"، رحمان ولی نے بتایا۔
انہوں نے بتایا "اب بات یہ ہے کہ وہ اپنی رپورٹنگ میں احتیاط کر رہے ہیں اور اس قسم کے رپورٹ کو وہ جارحانہ انداز کی بجائے نرم الفاظ کے ساتھ رپورٹ کرتے ہیں"۔
اسی طرح صحافی الف خان شیرپاؤ بھی احتیاط کے بارے میں بتاتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے دینی مدرسے میں ایک طالبہ تشدد سے شدید زخمی ہوئی تھی تو ہسپتال میں اس واقعے کو رپورٹ کرنے کیلئے گئے تو اسی ایم ایس کی موجودگی میں وہ کہانی کی بہتر انداز میں پیش نہیں کرسکتے تھے۔
پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کی تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) نے سال 2024 میں صحافیوں کے خلاف 162 واقعات کا ڈیٹا جمع کیا ہے جس میں صحافیوں پر کام کے دوران حملوں اور آزادی اظہار رائے میں سنسر شپ کا ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو صحافیوں کی، چار کو اغواء کرنے، پانچ افراد گرفتار،12 کی حراست اور 14 افراد کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں جبکہ دو افراد کے خلاف قانونی ایکشن لیا گیا ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے خیبرپختونخوا کے سابقہ کوآرڈینیٹر و صحافی گوہر علی خان کہتے ہیں کہ گزشتہ سال ملک بھر میں 7 صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں 3 کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے، 'اب اُن پر یہ تفتیش جاری ہے کہ وہ اپنے کام کے دوران قتل کئے گئے یا نہیں مگر تھے وہ صحافی'۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی کامران داؤڑ اور 18 جون کو ضلع خیبر میں خلیل جبران کی قتل کی زمہ داری تحریک طالبان نے لی تھی اور ان کے صحافتی کام سے اختلاف رکھتے تھے۔
گوہر علی کہتے ہیں "صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات ختم نہیں ہوئے بلکہ اس میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پاکستان میں بالعموم اور خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں بالخصوص رپورٹنگ کے دوران صحافیوں کے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے، وہ سچ نہیں لکھ سکتے اور آزادی کے ساتھ رائے کا اظہار نہیں کرسکتے"۔
انہوں نے بتایا کہ مین سٹریم میڈیا کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ وابستہ صحافیوں کو بھی کام کے دوران خطرات کا سامنا رہتا ہے، 'اگر آپ دیکھیں تو 2016 میں پیکا صرف اس مقصد کیلئے بنایا گیا تھا تاکہ ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنے والے صحافیوں کو کنٹرول کیا جائے۔
سال 2016 میں وفاقی حکومت نے سائبر جرائم کی روک تھام کیلئے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) 2016 کے نام پر ایک قانون بنایا تھا جس کو پاکستان کے صحافی بین الاقوامی قوامی قوانین اور پاکستان کے آئین کی آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔
پیکا قوانین، 2016 میں نافذ کئے گئے، بنیادی طور پر سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے بنائے گئے تھے، لیکن ان کا استعمال اکثر آزادیٔ اظہار کو دبانے اور تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف ہوتا ہے۔
صحافیوں کے خلاف پرتشدد کاروائی کیوں ہوتے ہیں؟
خیبرپخونخوا میں بین الاقوامی نشریاتی ادارے ایجنسی فرانس-پریسے کیلئے کام کرنے والے سینئر صحافی لحاظ علی کہتے ہیں کہ پاکستان میں یبشتر اُن صحافیوں کے خلاف کاروائیاں ہوتی ہے جو سٹیبلشمنٹ یا حکومتی اداروں پر تنقیدی رپورٹس بناتے ہیں۔
"اس کی واضح مثال مطیع اللہ جان کے خلاف کاروائی تھی۔ جس کا ان سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، اُن پر منشیات کی سپلائی اور پولیس سے زبردستی بندوق چھیننے کا مقدمہ درج کیا گیا وجہ صرف یہ تھا وہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر تنقید کرتے ہیں"۔
لحاظ علی کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا کے صحافی کالعدم مسلح تنظیموں اور سرکاری اداروں کے درمیان سینڈوچ بن کر مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں، ایک طرف کالعدم تنظیمیں خبروں کی اشاعت کا دباؤ ڈال رہے ہیں اور دوسری ریاست ان سے منع کرتی ہے۔
انہوں نے بتایا "ایف آئی آر اور گرفتاریاں تو پرانا مسئلہ ہے مگر اب مسئلہ ٹرولنگ کا بھی شروع ہوا ہے، جس سے نہ صرف صحافی متاثر ہیں بلکہ سیاسی لوگ اور صحافتی ادارے بھی متاثر ہیں"۔
صحافی لحاظ علی نے رپورٹنگ کے دوران صحافیوں کی کوتاہیوں کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات صحافی اپنی خبر کی تصدیق نہیں کرتے ہیں اور بہت سے جگہوں پر پروپیگنڈا اور حقائق کو مسخ کرنے کا کام کیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف صحافت بدنام ہوتی ہے بلکہ صحافیوں کے خلاف مقدمات بھی درج ہوتے ہیں۔