نازیہ
نا جانے باجوڑ کو کس کی نظر لگ گئی ہے کیونکہ باجوڑ اس وقت انتہائی سنگین جنگی صورتحال سے دو چار ہے۔ ابھی باجوڑ کے لوگوں کے آنسو خشک بھی نہیں ہوئے ہیں، پورے باجوڑ میں سوگ کا ماحول ہے کہی بچوں سمیت عام سویلین جنگ سے مر رہے ہیں، کہی پر لوگ نقل مکانی میں مصروف عمل ہے، تو کہی پر لوگ انتہائی خوف و ہراس میں مبتلا ہے۔ اس سنگین اور غمزدہ صورتحال میں تسلی کی ضرورت ہوتی ہے مگر ایسے میں سیلاب، طوفانی بارش اور لینڈ سلائینڈنگ نے باجوڑ کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے جس نے غم میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
سیلاب سے بونیر، سوات، لوئر دیر، مانسہرہ اور بٹگرام بھی متاثر ہوئے ہیں مگر باجوڑ اور بونیر سب سے زیادہ متاثر ہوۓ ہیں۔ یہ سیلاب باجوڑ کی تحصیل سلارزئی کے علاقہ جبراڑئ میں آیا، جس میں تاحال اکیس افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور سترہ افراد لاپتہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی بد قسمت خاندان کے پانچ افراد سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔ ایک اور بدقسمت خاندان جس کے دو لڑکے جو آپس میں بھائی تھے سیلاب میں بہہ گئے، ایک کی تو لاش مل گئی ہے جبکہ دوسرے کی تلاش جاری ہے۔ یہ کوئی کم تعداد نہیں کیونکہ ایک فرد سے پورا خاندان جڑا ہوتا ہے۔
کچھ دن پہلے ہی دہشتگردوں نے سلارزئی میں پولیس چوکی کو بم سے اڑا دیا تھا جس کی وجہ سے سلارزئی کے لوگ پہلے سے خوفزدہ تھے اوپر سے سیلاب، آندھی طوفان اور طوفانی بارش ہو تو ذہنوں کا کیا حال ہوگا؟
باجوڑ کے لوگ بد امنی سے کافی پریشان ہے اور اس سوچ میں ہے کہ کب باجوڑ میں امن کو بحال کیا جائیگا مگر کیا معلوم تھا کہ سیلاب اور طوفانی بارشیں باجوڑ کا رخ کرنے والے ہیں۔ حالات اس قدر سنگین ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی نے سیلاب سے ہونے والے جانی نقصان پر سوگ منانے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔
بعض اوقات تو حالات اس قدر سنگین ہو جاتے ہیں کہ انسان چاہتے ہوئےبھی کسی کی مدد نہیں کر سکتا ہے جیسا کہ ریسکیو 1122 کے اہلکار بڑی مشکل سے امداد کے لیے پہنچے تھے۔ بلکہ کئی جگہیں تو ایسے ہیں جہاں ریسکیو کے اہلکار چاہتے ہوۓ بھی نہیں جا سکے۔
اس کے علاوہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے حکم پر باجوڑ امدادی سامان پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹر روانہ ہوا تھا جو چینگئ بانڈہ میں ہی کریش ہو گیا تھا۔ جس میں دو پائلٹ سمیت پانچ افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ ہے نا کتنے دکھ اور افسوس کی بات جو دوسروں کی جانیں بچانے کی خاطر نکل پڑیں اور خود ہی اپنی زندگیاں گنوا دیں۔
نا جانے کیوں ہم سب اس وقت جاگ جاتے ہیں جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور انسان کی زندگی ہاتھ سے نکلتی جاتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں کب سہولیات ہوتی ہے اور ایسے میں جب سیلاب آ جاتا ہے، تو پھر ایسے میں حالات کا مقابلہ کرنا انتہائی کھٹن ہو جاتا ہے۔
یاد رہیں کہ باجوڑ کے زیادہ تر لوگ مال مویشی پالتے ہیں اور فصل بھی اگاتے ہیں اور جب بھی امن و امان کی صورتحال خراب ہوتی ہے یا سیلاب آتا ہے تو ایسے میں ان لوگوں کے مال مویشی اور فصلیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
باجوڑ کے لوگ اپنے مال مویشی اور فصلوں سے اپنے آپ سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں کیونکہ یہ ہی ان کی روزی روٹی کا اہم زریعہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیلاب ہو یا دہشتگردی ہو اس میں ان لوگوں کے گھر تباہ ہو جاتے ہیں جو انہوں نے بڑے پیار اور محنت و مزدوری کی کمائی سے بنائے ہوتے ہیں۔
آخر میں بس اتنا کہونگی کہ ایسی جگہ گھر بنائیں جہاں سیلاب کے آنے کا خطرہ نہ ہو، اور ایسی جگہوں پر گھر نہیں بنانے چاہیے جہاں پر پہلے سے سیلاب آ چکے ہو بلکہ ان کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور احتیاط کرنی چاہیۓ۔ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کو بر وقت پیشنگوئی کرنی چاہیے اور لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے تاکہ لوگ محفوظ مقامات منتقل ہو سکیں۔
حکومت جو امداد ان لوگوں کی کر رہی ہے اس کا تو شکریہ مگرحکومت کو چاہیے تھا کہ پہلے سے کچھ اقدامات کرتے تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ حکومت، ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی اور لوگوں کو مستقبل کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے چاہیے جو آنے والے وقتوں میں تباہ کن ثابت نہ ہو۔
موسمیاتی تبدیلی خطرناک حد تک پوری دنیا کو متاثر کر رہی ہے ابھی بھی وقت ہے کہ ایسی پالیسیاں اپنائی جائیں جو ماحول دوست ہو ورنہ آنے والے وقتوں میں لوگ خطرناک حد تک اس سے متاثر ہونگے۔