عبدالقیوم آفریدی
خیبر پختونخوا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث انسانی المیہ جنم لے رہاہے، 15اگست کی رات اور دن کو ہونیوالی بارشوں ،کلاوڈبرست اور فلش فلڈ سے خیبر پختونخوا کے شمالی اضلاع میں تین سو سے زائد افرادجاں بحق جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد لاپتہ ہوگئے ہیں۔ جنکی تلاش جاری ہے ان اضلاع میں سوات،باجوڑ،بشام،دیر اپر اور لوئر اور بونیر بھی شامل ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ضلع بونیر کے بشنوئی گاوں ہے جہاں پر دو سو سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں ۔
موسمیاتی تبدیلی کیسے ہمارے موسم کو بد ل رہاہے ؟
خیبر پختونخوا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے وجہ سے موسموں کا وقت بدلتا جارہے۔ جس کی مثال حالیہ مون سون کی ہے ،انوائرمنٹل صحافی داﺅد خان نے بتا کہ خیبر پختونخوا میں رواں سال مون سون موسم میں غیر معمولی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے ،عام طور پر خیبر پختونخوا میں مون سون موسم سیزن جولائی کے پہلے ہفتے میں شروع ہوتا ہے لیکن اس دفعہ 22جون سے مون سون سیزن شروع ہوگیا اور اس کا دورانیہ نا صرف ذیادہ بلکہ ترتیب میں بھی تبدیلی آگئی اور یہی وہ موسمیاتی تبدیلیاں ہے جسکے باعث لوگ متاثر ہورہے انہوں نے بتا کہ ہوسکتا ہے کہ مون سون سیزن ستمبر تک ایکسٹینڈہوجائے داﺅد نے بتا کہ حالیہ بونیر ،سوات ،باجوڑ سمیت دیگر اضلا ع میں سیلاب اور کلاﺅڈ برسٹ وہ نتائج ہے جو ہم بھگت رہے ہیں اس حوالے سے سنجیدگی کیساتھ سوچنا چاہیے۔
ضلع بونیر کا بشنوئی گاﺅں جہاں دو سو سے زائد افرا کی موت ہوگئی ہے۔
قیصر عالم کا تعلق ضلع بونیر کے بڑے شہر پیربابا سے ہے جو حالیہ سیلاب اور کالاﺅڈ برسٹ سے شدید متاثر ہوا ہے، انہوں نے بتا یا کہ پیر بابا سٹی سے بشنوئی گاؤں شمال کی جانب پیدل ایک گھنٹہ کہ مصافحت پر ہے۔ جو کہ انتہائی خوبصورت گاﺅں جو ایک درے کی صورت لئے کنارے گھر، جبکہ درمیان پہاڑوں میں چشموں سے بہنے والا پانی خوبصورت منظر پیش کرتا تھا، 15اگست کو کلاﺅبرسٹ کی نظر ہوگیا اور اب ایک ویران جگہ کا منظر پیش کرتا ہے قیصر عالم نے بتایا کہ تمام اضلاع میں سب سے زیادہ یہی بشنوئی گاﺅں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں مقامی افراد کے مطابق2سو سے زائد افراد جاں بحق کبہ ڈیڑھ سو کے قریب لاپتہ ہیں۔
ضلع بونیر بشنوئی گاﺅں کے متاثرہ شخص کی کہانی
جب سیلاب آیا تو میں لاہور میں تھا 15اگست کی صبح دس بجے کا وقت تھا ، جب مجھے اطلاع ملی تو لاہور سے روانہ ہوگیا رات کےڈھائی بجے تھے کہ جب میں اپنے گاﺅں پہنچا ، ہمارے حجرے میں بہت زیادہ لاشیں پڑی تھی۔ اسی طرح جب گھر کے اندر گیا تو پندہ بیس لاشیں گھر میں پڑی تھی۔ یہ کہنا ہے ضلع بونیر کے بشنوئی گاﺅ ں کے رہائشی سلمان خان کا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ چونکہ اپنے علاقے کا منتخب بلدیاتی نمائندہ بھی ہوں تو مجھے سوچ آئی کہ ہمارے گاﺅں کی خواتین ، بچے ،بڑے سب پانی میں بہہ گئے ہونگے ، جہاں بھی دیکھا تو لاشیں ہی لاشیں پڑی تھی ہر طرف جو دیکھنے کی بھی قابل نہیں تیںے ،پیچھے ملبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے چچا کا گھر ہے جہاں پر 16اگست کو میرے بھتیجے کی شادی کی تاریخ بھی مقرر تھی۔ تو میرے چچا کے گھر سے24افراد سیلاب میں بہہ گئے۔ جس میں20افراد کی لاششیں مل چکی ہیں جبکہ باقی اب بھی لاپتہ ہے ،اپنے چچاکے گھر کے قریب گھر کے ملبے کی طرف سلمان نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا پڑوسی ہے، جس کے گھر سے41افراد سیلاب میں بہہ گئے۔ جن میں 27افراد کی لاشوں کو نکال کرانکی تدفین کر دی گئی ہے جبکہ باقی ماندہ لاشوں کی تلاش جاری ہے۔
ایک اور گھر کے ملبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس گھر سے بھی 9افراد سیلابی ریلے میں بہہ چکے ہیں جن میں 7کی لاشوں کو نکال کر تدفین کی دی گئی ہے جبکہ باقی دو افراد کی تلاش جاری ہے انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں پر ایک گھر ہے مکمل طور پر سیلاب میں بہہ گیا ہے اور ان میں پانچ افراد کو بہا لے گیا ہیں ۔ جن کی لاشیں تاحال نہیں ملی انہوں نے مزید کہا کہ یہاں بشنوئی گاوں میں زندہ بچنے والے اپنے پیاروں کے لاشوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
صحافیوں نے کیا دیکھا؟
سینئر صحافی عزیز بونیری کوریج کے لئے15اگست بشنوئی گاﺅں میں رپوٹنگ کرنے لئے موجود رہے، نے بتا یا کہ بشنوئی گاﺅں جو پیر باباسٹی سے50سے60منٹ کی مصافت پر ہے انتہائی خوبصورت ہے لیکن اب ایک کھنڈر بن چکا ہے ،عزیزبونیری نے بتایا کہ ایک چھوٹا سا درہ انکے بیچ میں پانی بہتا تھا لیکن کلاوڈ برسٹ اور سیلاب کی وجہ سے کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے۔ بڑے بڑے پتھر سیلاب اپنے ساتھ لائے، جہاں کبھی کھیت ،درخت اور سبزہ تھا اب وہاں پر بڑے بڑے پتھر نظر آتے ہیں۔ ہر گھر غم میں ڈوبا ہوا ہے کسی کا بھائی تو کسی کا والد،ماں ،بیوی ،بچے یا رشتہ درار کی زندہ یا لاش کے لئے سرگرادں نظر آیا۔
عزیز بونیری نے کہا کہ حکومت کے لئے غیر سرکاری تنظیموں کی وجہ سے ریسکیو سرگرمیاں جاری ہے لیکن رابطہ سڑکیں ،موبائل اور بجلی نظام درہم برہم ہونے باعث ریسکیو کی سرگرمیوں میں مشکلات ہیں انہوں نے بتا کہ بھاری مشینری پہنچا کر لاپتہ افراد کی تلاش شروع کرے تو بڑی حد تک لوگ مطمئن ہوجائے گے۔
صحافی انور زیب نے بتایا کہ بشنوئی گاوں میں 100سے زائد گھر تھے، جن میں 4کے علاوہ کوئی ایسا گھر نہیں بچا جو سیلاب سے متاثر نا ہوا ہو۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ سیلاب نے صاف پانی کا نظام بھی تباہ کردیا ہے تو اس وجہ سے پینے کی صاف پانی بہت بڑا مسلئہ پیدا ہوگیا ہے ،انور زیب نے مزید کہا کہ حکومت اور دیگر فلاحی تنظیمیں اگر مدد کرنا چاہیتی ہے تو کوشش کرے کہ مختلف علاقوں میں پینے کے صاف پانی کا بندوبست کرے۔
خیبر پختونخوا حکومت کیا کر رہی ہے؟
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور ملاکنڈ ڈویژن میں سیلاب سے متاثرہ اضلاع کے دورے پر ہے بونیر میں وزیر اعلیٰ نے ہنگامی اجلاس کی صدارت کی جس میں سیلاب سے شہید ہونے والے افراد کے ایصال ثواب کے لیے دعا کی گئی، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو بونیر میں سیلاب کی تباہ کاریوں ، ریسکیو اور ریلیف و بحالی کی سرگرمیوں بارے میں بتا یا گیا کہ ضلع بونیر کے سات ویلج کونسلوں میں کلاوڈ برسٹ سے مجموعی طور پر 5380 مکانات کو نقصان پہنچاہے اور صرف بونیر میں 209سے زیادہ اموات رپورٹ ہوئی ہیں ، 134 افراد لاپتہ ہیں جبکہ 159 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ریسکیو اور ریلیف سرگرمیوں میں 10 ایکسکیویٹرز ، 22 ٹریکٹرز، 10 ڈی واٹرنگ پمپس، 5 واٹر باوزرز، اور 10ڈوزر شامل ہیں ریلیف سرگرمیوں میں 223 ریسکیو اہلکار ، 205 ڈاکٹرز، 260 پیرا میڈیکل اسٹاف ، 400 پولیس اہلکار ، 300 سول ڈیفنس کے رضاکار اور پاک فوج کی تین بٹالین حصہ لے رہی ہیں۔
متاثرہ لوگوں کو خوراک، صحت سہولیات ، ٹینٹس، کمبل میٹرس سمیت تمام ضروری اشیا فراہم کی جا رہی ہیں۔ پیر بابا کا 6 کلومیٹر روڈ، گوکند کا 3.5 کلومیٹر روڈ کلیئر کر لیا گیا ہے، 15 مختلف مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کا ملبہ بھی کلیئر کر لیا گیا ہے، ضلع بونیر سمیت 8 متاثرہ اضلاع میں ریلیف ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے ، بونیر میں لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے سیلاب میں پھنسے 3500 افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا تھا۔
ریلیف سرگرمیوں میں پاک فوج کے دستے بھی حصہ لے رہے ہیں،وزیر اعلی نے اجلاس کو بتایا کہ متاثرہ لوگوں کی بحالی میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے، صوبائی حکومت اس مقصد کے لیے درکار وسائل ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرے گی،لوگوں کا جو نقصان ہوا ہے۔ صوبائی حکومت اس کا بھرپور ازالہ کرے گی سیلاب متاثرین کو مشکل کی اس گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑیں گے ، انکی بحالی و آبادکاری ترجیحی بنیادوں پر کریں گے۔
سیلاب سے تباہ شدہ انفراسٹرکچرز کو ترجیحی بنیادوں پر بحال کریں گے تاکہ لوگوں کو بلا تعطل سہولیات کی فراہمی یقینی ہو، سیلاب میں شہید ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کو بلا تاخیر معاوضوں کی ادائیگی یقینی بنائی جائےکی جس کے لئے صوبائی حکومت نے اس مقصد کے لیے ڈیڑھ ارب روپے جاری کر دیئے ہیں۔
مجموعی صورتحال کیا ہے؟
خیبر پختونخوا کے پراونشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق اب تک صوبہ بھر کے مختلف علاقوں میں ہونے والی بارشوں اور فلش فلڈ کے باعث حادثات میں اب تک 314 افراد جاں بحق اور 156افراد زخمی ہوئے ج،جاں بحق افراد میں 264 مرد، 29 خواتین اور 21 بچے شامل جبکہ زخمیوں میں 123 مرد، 23 خواتین اور 10 بچے شامل ہے بارشوں اور فلش فلڈ کے باعث اب تک کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 159 سے زائد گھر وں کو نقصان پہنچا۔
جس میں 97 گھروں کو جزوی اور 62 گھر مکمل منہدم ہوئے، پی ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر میں اب تک مجموعی طور پر سب سے زیادہ 209 افراد جابحق ہوئے پی ڈی ایم اے کے مطابق 17 سے 19اگست کے دوران خیبر پختونخوا کے مختلف حصوں میں مزید شدید بارشوں کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جبکہ بارشوں کا موجودہ سلسلہ 21 اگست تک وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے ۔