ایزل خان
جیسے جیسے معاشرہ ترقی یافتہ ہوتا جا رہا ہے، ویسے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہیں ہیں۔ ان میں سے ایک مشکل جس میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے، وہ ہیں بچوں کو وقت دینا اور انکی اچھی تربیت کرنا۔
آج کل اکثر والدین تعلیم یافتہ ہیں، ان کے لئے جاب کرنا،پھر گھر میں بچوں کو ٹائم دینا اور سوشل میڈیا کو ساتھ ساتھ مینج کرنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ اور جو مائیں اگر ورکنگ وومن نہیں ہیں، انکو بھی بچوں کو ٹائم دینا، بچوں کو سننا، ان کے ساتھ ٹائم گزارنا ایک بہت بڑا مسئلہ لگ رہا ہے۔
اس وجہ سے والدین نے بچوں کو وقت نا دینے کے لئے اور انہیں خاموش کرنے کے لئے آسان حل بنایا ہے، وہ ہے بچوں کو موبائل فون دینا اور انہیں خاموش کرنا۔
میں تمام والدین کو یہ بتانا چاہتی ہو کہ موبائل فون سے ہمارے بچوں کی تربیت نہیں ہو رہی بلکہ موبائل بچوں کو خاموشی اور ذہنی سکون چھینے کا عادی بنا دیتا ہے۔
وہ کیسے؟ آج کل یہ ایک ٹرینڈ بن چکا ہے اور پرسنلی مجھ بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے، جب بھی جہاں جاتی ہو یا کوئی ہماری گھر آتے ہے اگر بچہ رو رہا ہے چاہیں وہ کسی اور وجہ سے رو رہا ہو یا اسی بھوک لگی ہو،یا انکی طبیعت ٹھیک نا ہو۔یا کسی نے مارا ہو،مائیں بجائے اس کے کہ بچے کو سنا کریں ان سے پوچھا کریں کہ کیا ہوا ہے،فورا اس کے ہاتھ میں موبائل فون دے دیتی ہے۔
کہ کمرے میں جاؤ کارٹون دیکھو ،گیمز کرو میرا دماغ مت خراب کرو۔ کیا ہم نے ایک بار اپنے آپ سے سوال کیا ہے کہ ہماری اس غفلت کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے؟ کیا ہم نے ایک بار سوچا ہے؟ اگر آج ہمارے پاس اپنے بچوں کو وقت دینے کے لیے وقت نہیں ہے، کیا کل یہ معاشرے کے لئے ایک اچھا انسان بن سکتا ہے؟ کیا یہ بچہ ہمارا بڑھاپے میں سہارا بن سکتا ہے؟
یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب آپ خود بچے بگاڑ دیتے ہے، مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ والدین نے کیوں موبائل فون کو تربیت کا متبادل سمجھا ہے؟
میرا سوال ہے ان سب لوگوں سے کہ اگر آپ بچے سنبھال نہیں سکتے تو بچے پیدا کیوں کرتے ہے؟بچوں کی زمہ داری صرف نو مہینے پیٹ میں رکھنے کا نام نہیں ہے۔تمام عمر اپنی بچوں کو کامیاب بنانے اور معاشرے کو اچھا انسان پیش کرنے کا نام ہے۔
یہ کوئی مزاق نہیں ہے،ایک بار یہ سوال اپنے آپ سے ضرور کریں کہ کیا ہم نے اچھے اور زمہ دار والدین ہونے کا فرض نبھایا ہے؟ اگر آپ نہیں نبھا سکتے یہ بڑی زمہ داری سوسائٹی کے پریشر میں بچے پیدا نا کریں۔
کیونکہ بچے وقت چاہیے تربیت چاہیے ماں باپ کی توجہ کے بھوکے ہوتے ہے کہ اس کے ساتھ وقت گزارا جائے،بچوں کے ذہن میں بے شمار سوالات ہوتے ہے۔ وہ چاہتے ہے کہ والدین اسکا جواب دے۔
ان سے پیار کیا جائے۔ بچے چاہتے ہے اگر کبھی ان سے غلطی ہو جائے مار پیٹ کے بجائے پیار سے سمجھایا جائے،والدین کی زمہ داری صرف بچے پیدا کرنا نہیں ہے، صرف کھانا کھلانا ،کپڑے دلوانا نہیں ہے آپ نے اپنے بچوں کی ذہنیت اور اخلاقی تربیت کرنا ہے جو کہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔
یہ آپ ( والدین) کی زمہ داری ہے کیونکہ یہ بچے آپ کی اگلی نسل کی بنیاد ہے اگر آج آپ کے پاس بچوں کی تربیت اور وقت دینے کی فرست نہیں ہے تو کل آپ اپنے بچوں سے کیا امید رکھتے ہوں؟ کہ وہ میری بات سنے گا ؟ مجھ ٹائم دے گا؟ میری لئے اور معاشرے کی اچھا انسان بنے گا؟ یہ کوئی خیالی باتیں نہیں ہے۔
جو میں لکھ رہی ہو ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے، جو مجھ واقعی میں پریشان کرتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔
یہاں تو ہر والدین کے ذہن میں صرف یہ بات ہے کہ ہمیں بچے چاہیے، لیکن اگر بات بچوں کی تربیت کی آجائیں تو والدین کو بلکل علم نہیں ہے کہ بچوں کی تربیت بھی کرنی چاہئے اگر ان سے یہ سوال بھی کریں تو آگے سے جواب یہ سننے کو ملتا ہے انکو کھلاتے پلاتے ہے،انہیں کپڑے دلاتے ہیں فلاں سکول میں پڑھاتے ہے، یہ لوگ دن میں اتنے پیسے کھاتے ہے اور کیا کریں ہم،ان کے ذہن میں یہ تربیت کا نام ہے۔
مجھ اس ٹائم صرف یہ بات ذہن میں آتی ہے، بچوں سے پہلے والدین کو تعلیم اور سمجھانے کی ضرورت ہے،کیونکہ میں نے اپنی اردگرد کئی ایسے مائیں اور والدین دیکھے ہے کہ یہ سب کرتے ہے اور بہت فخر سے کہتے بھی ہے کہ ہمارے بچے روزانہ اتنا ٹائم موبائل گیمز اور کارٹون دیکھتے ہے،اگر بچے روتے ہے تو ہم انہیں پیسے دیتے ہے۔چاہے اس میں بچے والدین جتنے پیسوں کی ڈیمانڈ کریں مائیں بغیر جھجک کے دیتے ہے کہ بچہ چپ ہو جائے۔
میں یہاں پر ایک سٹوری شئیر کرنا چاہتی ہوں،ہمارے دور کے رشتہ داروں میں ایک لڑکی ہے اس کی شادی ہوچکی ہے اس لڑکی کے تین بچے ہے، دو بیٹے ایک بیٹی، کچھ ٹائم پہلے ہم اس کے گھر گئے تھے،وہ لڑکی مجھ اپنے بچوں کے شکایتیں کر رہی تھی، وہ کہنے لگی کہ جب میرے شوہر مہینے کا خرچہ بھیجتے ہے اور میرے بچوں کو پتہ چلتا ہے تو میری بچے روزانہ ایک ضد کرتے ہے کہ ہم گھر کا کھانا نہیں کھائے گے، باہر سے آرڈر کرو کبھی کبھار بچوں کی ضد پوری کرتی ہو،لیکن اگر کبھی گھر میں سالن پکاؤ تو روتے ہیں اور گھر کا کھانا نہیں کھاتے۔
دوسری ضد بچے یہ کرتے ہے کہ کھلونے مانگتے ہے، اگر چہ بہت زیادہ گھر میں کھلونے موجود ہے۔ اگر بچوں کی ضد پوری نہیں کرتی ہو تو خود سے مارکیٹ جا کر ادھار لے کر آتے ہے، کیونکہ مارکیٹ قریب ہے اور سب لڑکی کے بھائی دوکاندارو کے آشنا لوگ ہے۔
اگر غصہ کرتی ہو تو بچے کہتے ہے میں خود کو مار دینگے، گاڑی کے نیچے آجائے گے، اس وجہ سے بہت تنگ آگئی ہوں،اگر مہینے کے آخر میں میرے پاس پیسے نا ہو اور میں اپنے بچوں کو کہتی ہو کہ پیسے نہیں ہے میرے پاس۔ تو آگے سے کہتے ہے پڑوسیوں سے ادھار لے لو جب ابا بھیج دی پھر دے دینا۔
اور بچوں کی عمر ہے 9 سال،7 سال،5 سال جب میں نے یہ کہانی سنی میرا دماغ کام نہیں کر رہا تھا کہ یہ میں کیا سن رہی ہو،میں نے اس لڑکی سے ایک سوال کیا، میں نے پوچھا کہ سچ سچ بتانا جب یہ بچے آپ سے ٹائم مانگ رہے تھے تو سوال کرنے کی صورت میں بات کرنے کے صورت میں شرارتیں کرنے کے صورت میں اس وقت آپ کیا کرتی تھی؟ بچوں کو سنتی تھی یا موبائل فون دیتی تھی یا پیسوں سے چپ کرواتی تھی اس نے ہنس کر کہا پیسوں اور موبائل سے چپ کرواتی تھی.
لیکن یہ آپ کو کیسے پتہ؟میں نے کہا آپ کیوں ایسا کرتی تھی کہنے لگی کہ میرا اتنا حوصلہ نہیں کہ گھر کے کام بھی کروں ساس اور فیمیلی کی باتیں بھی سنو اور بچوں کو بھی ٹائم دو۔ میں نے پھر شکوہ کس بات کا؟
یہی تو وہ وجوہات ہے جب بچے ضدی اور خود سر بن جاتے ہے۔ جب بچوں کو والدین کے پیار اور وقت کی ضرورت تھی، والدین کے پاس وقت نہیں تھا،جب بچے کو بار بار نظر انداز کیا جائے اسے جبرا خاموش کیا جائے،تو بچے وہ کمی ایک نہ ایک جگہ سے تلاش کر رہا ہے،اکثر بچے وہ پیار نرمی،اور ذھنی سکون باہر کی لوگوں میں تلاش کرنا شروع دیتے ہے اس میں اکثر ایسے جگہیں ملتی ہے ل،جہاں سے اسے نقصان ملتا ہو،پھر والدین شکوہ کرتے ہے کہ یہ بچہ بگڑ گیا ہے ہمیں تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیا وجہ ہے۔
میں ان سے یہ کہنا چاہتی ہو کہ بچہ آپ نے خود بگاڑ دیا ہے۔ کیسے؟ اسے جب پیار کی ضرورت تھی آپ نے نظر انداز کیا،جب اسے بات کرنے کا جنون تھا،آپ بار بار اسے خاموش کرتی گئی،کچھ والدین تو اس قدر نا انصافی کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ جب بچوں کی عمر سکول جانے کی نا ہو تب بچوں کو داخل کرتے ہے۔ اس مقصد سے نہیں کہ وہ کچھ سیکھ سکے بلکہ اس لئے کہ ہمیں کچھ گھنٹے ذہنی سکون ملیں اور گھر میں شور نہ ہو،آج کل کے دور میں تعلیم تو بڑھ رہی ہے لیکن تربیت کی کمی ہوتی جا رہی ہے،سہولتیں بڑھ رہی ہے،لیکن محبت اور خلوص کم ہو رہے ہے،والدین تعلیم یافتہ ہوتے جا رہے ہیں مگر بچوں سے دور۔
خدارا اگر آپ اپنی بچوں کو مکمل کامیاب انسان بنانا چاہتے ہیں تو روزانہ اپنی بچوں کے لیے ایک گھنٹہ وقت ضرور نکالیں جس میں موبائل کا استعمال نا ہو بلکل ایک اچھی بات چیت ہو،بچوں کو سنیں،اگر بچیں آپ سے سوالات کرتے ہے بات کرنا چاہتے ہے انہیں جواب دیا کریں کیونکہ بچوں کے جذبات سچے ہوتے ہیں انہیں مار پیٹ سے نہیں پیار سے سمجھائیں ،اپنی بچوں کا موازنہ دوسروں بچوں سے نا کیا کریں،کیونکہ ہر بچے کے فطرت مختلف ہوتی ہے۔ ہر ایک بچے میں کوئی نا کوئی خوبی اور صلاحیت موجود ہوتی ہے،تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے تربیت پر توجہ کریں ورنہ تعلیم بیکار ہے۔
میں تمام والدین کو یہ پیغام دینا چاہتی ہو کہ خدارا اپنی بچوں کی تربیت پر فوکس کریں کیونکہ اس سے ہمارا معاشرہ بنتی ہیں، بچوں کو سنبھالنا مشکل ضرور ہے مگر ان کا بگڑ جانا ناقابل تلافی نقصان ہے آج اگر آپ نے ان کے لئے وقت نہیں نکالا تو کل وہ آپکی آواز بھی نہیں سنے گے