آفتاب مہمند
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں سرکاری سکول ریڑھی بانوں و سبزیاں رکھنے کیلئے استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ سکول واقع ہے ،پشاور کے علاقہ نوتھیہ جدید میں، جس پر نوٹس لیتے ہوئے ڈی ای او پشاور نے سکول کے پرائمری ہیڈ ٹیچر کا تبادلہ کر دیا، چوکیداروں کو 120 روز کیلئے معطل کرکے انکوائری تشکیل دیکر سات روز کے اندر اندر ایک جامع رپورٹ تیار کرنے کا کہا۔
اسی حوالے سے رابطہ کرنے پر پاکستان رائے حق پارٹی کے صوبائی نائب صدر و رہائشی نوتھیہ جدید سید عبد الواحد شاہ نے ٹی این این کو بتایا کہ انکے اپنے بچے بھی اسی سکول سے پڑھے ہیں۔ جس دن یہ واقعہ پیش آیا، اسی روز انکی بھتیجی وفات پا گئی تھی، ایسے میں مذکورہ سکول ہی میں جب نماز جنازہ ادا ہوا، تو باہر انتظامیہ کے دوران آپریشن کئی ریڑھے بان سکول کے اندر داخل ہوئے جس پر نوٹس لیا گیا ہے۔ اسی سکول میں اہل علاقہ ہر نماز جنازہ بھی پڑھتے ہیں، جیسے کہ علاقے میں کوئی جناز گاہ ہے ہی نہیں۔ انکا کہنا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ روٹین میں یہاں پر ریڑھے کھڑے کئے جاتے ہیں یا سبزیاں رکھی جاتی ہیں۔
سید عبد الواحد شاہ نے مزید بتایا کہ انکی نظر میں نوٹس لینا نہیں بنتا، ڈی ای او پشاور اس بات کا نوٹس کیوں نہیں لیتے کہ مذکورہ اسکول کیلئے ایم ایم اے کی دور حکومت میں جو الگ ایک ہائی سیکشن بنا ہے، آج تک بند پڑا ہے۔ جسکی عمارت خستہ حال ہو کر کھنڈر بن گئی ہے۔ اسی عمارت کی تزئین و آرائش کیلئے جو 75 لاکھ روپے منظور ہوئے تھے وہ کہاں گئے؟ ان پیسوں پر خاموشی کیوں؟ مذکورہ سکول کے صرف پرائمری سیکشن میں 900 سے 950 تک بچے پڑھ رہے ہیں جو کہ ایک بڑی تعداد ہے، علاقے میں مزید سکولوں کی تعمیر پر توجہ نہ دینا ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔
پاکستان رائے حق پارٹی ضلع پشاور کے جنرل سیکرٹری و رہائشی نوتھیہ جدید محمد طفیل نے ٹی این این کو بتایا کہ انکے اپنے بچے بھی اسی سکول میں پڑھتے ہیں۔ اسی روز وہ ملتان گئے ہوئے تھے تاہم بعد میں انہیں اس واقعے کا علم ہوا۔ ضلعی انتظامیہ کی کاروائی ہو یا ڈی ای او پشاور کا نوٹس، مکمل طور پر جائز ہے جیسا کہ دوران آپریشن ریڑھی بانوں کا کیا کام کہ وہ سکول کے اندر داخل ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ سکول کا چوکیدار ایک افغانی ہے، جنہوں نے پاکستانی کارڈ بنایا ہوا ہے۔ یہاں کے جو ریڑھی بان ہیں اکثریت افغانی ہیں، لہذا سکول چوکیدار نے اسلئے اس روز جگہ دی۔ اسی سکول چوکیدار کے خلاف پہلے بھی آواز اٹھائی ہے کیونکہ انکی اجازت سے ہر رات ایک افغان ریڑھی بان اپنی ریڑھی سکول کے اندر کھڑا کر دیتا ہے۔ انکی نظر میں پرائمری سکول کا ہیڈ ٹیچر کا تبادلہ درست نہیں کیونکہ سکول کی چابی اسی چوکیدار کے پاس ہوتی ہے اور وہ ہائی اسکول کے سیکشن کا چوکیدار ہے۔ مذکورہ سکول محض تعلیمی سرگرمیوں کیلئے استعمال ہونا چاہیئے۔
آل پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر عزیز اللہ خان نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ خود بھی مذکورہ واقعے کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اصل حقائق تک پہنچے، تاہم صوبے کا بھی سکول ہوں محض تعلیمی سرگرمیوں کیلئے استعمال ہونا چاہیئے۔ بنیادی بات بھی یہ ہے کہ وہ پرانےسکول جو حکومت نے پرائی جائیدادوں پر عمارتیں بنائی تھی، تو حکومت و محکمہ تعلیم اگر ایک عمارت پر کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے، تو لاکھوں روپے میں ان سکولوں کے لئے اپنی جائیداد کیوں نہیں خریدتی تاکہ ایسے مسائل و واقعات کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔
وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند قرار دیتے ہیں کہ اب کسی بھی تعلیمی ادارہ بنانے کیلئے حکومت اپنی جائیداد بھی خریدے گی۔ جہاں تک مذکورہ واقعے کا تعلق ہے۔ واقعی اگر ایسا ہوا ہے ، پھر تو محکمہ تعلیم پشاور کو قانون کے مطابق بھرپور کاروائی کرنی چاہیئے۔ وہ جانتے ہیں کہ جو انکوائری آفیسر ہے "پرویز مروت" انتہائی ایماندار بندے ہیں، کوئی دباؤ یا سفارش قبول نہیں کرتے، محض میرٹ ہی پر انکوائری کریں گے۔ اساتذہ کی صوبائی تنظیم ہر کنونشن، سیمینار یا کوئی بھی سرگرمی ہو پھر پور آواز اٹھاتی ہے کہ تعلیمی ادارے محض تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال ہونگے۔
اسی حوالے سے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر پشاور عرفان اللہ نے ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ پشاور کی زیر نگرانی تجاوزات کے خلاف ایک آپریشن جاری تھا، دوران آپریشن کئی ریڑھی بان مذکورہ سکول کی طرف بھاگ کر اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے خود سکول کا ویزٹ کرکے معائنہ بھی کیا ہوا ہے۔ مذکورہ اسکول کے ہیڈ ٹیچر کا تبادلہ کر دیا گیا ہے جبکہ کلاس فور ملازمین کے خلاف باقاعدہ انکوائری کا آغاز ہو چکا ہے۔ انکوائری مکمل ہونے کے بعد جو ڈیپارٹمنٹل و قانونی سزا بنتی ہے تو اس پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا۔
انکا کہنا ہے کہ پشاور کے دیگر تمام سرکاری سکولوں کے حوالے سے ایسی کوئی بات نہیں، روٹین کے مطابق تمام سکولوں میں محض تعلیمی سرگرمیاں چل رہی ہیں۔ تمام تعلیمی ادارے محض تعلیمی مقاصد کیلئے استعمال ہونگے، تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ اور کسی بھی سرگرمی کی اجازت قطعا نہیں دی جا سکتی۔ کہیں بھی خلاف ورزی کی شکایات سامنے آتی تو قانون کے مطابق کاروائی بھی ہوگی۔