رعناز
ہمارے معاشرے میں شادی کے موقع پر ایک بڑا دلچسپ تماشا ہوتا ہے ۔ جیسے ہی بات حق مہر کی آتی ہے، سب کو اسلام یاد آ جاتا ہے۔ ہر شخص اسلامی سکالر بن جاتا ہے۔ فوراً سے سب لڑکے والوں کو احادیث، آیات، سیرتِ نبویؐ کے واقعات یاد آ جاتے ہیں ۔ جیسے کہ نبی ﷺ نے کم مہر رکھا تھا۔اسلام سادگی کا درس دیتا ہے۔مہر تو صرف رسمی چیز ہے۔بس قرآن کی ایک آیت ہی کافی ہے و غیرہ وغیرہ۔
یعنی حق مہر کے وقت سب میں دینداری کا طوفان آ جاتا ہے۔ سب بڑے عالم فا ضل بن جاتے ہیں ۔مگر جیسے ہی بات جہیز کی ہو، سب کی زبانیں بند، دلوں پر قفل، اور آنکھوں پر پردے آ جا تے ہیں ۔ نہ کوئی حدیث، نہ آیت، نہ سادگی، نہ سنت۔ بس فرمائشوں کی فہرست جو کہ کچھ یوں ہوتی ہیں۔
فریج نئی کمپنی کا ہونا چاہیے۔سونا کم از کم 5 تولے ہونا چاہیے۔اے سی، واشنگ مشین تو گھر کی ضرورت ہے وتو ضرور ہونی چاہیے۔ اور سونے پر سوہاگا لڑکے کی ماں کہتی ہے میرے بیٹے کو گاڑی بھی بہت پسند ہے۔
اب سوال یہ ہےکہ کیا اسلام صرف حق مہر میں ہے؟ جہیز میں نہیں؟اسلام کے نام پر فائدہ، باقی سب کاروبار۔حق مہر کے وقت اسلام یاد آتا ہے کیونکہ وہ لڑکے پر فرض ہے۔ یعنی پیسے دینے پڑتے ہیں، اس لیے سب کو دین کا سہارا چاہیے تاکہ رقم کم ہو جائے۔
مگر جہیز؟ وہ تو لڑکی والوں سے ملتا ہے، تو وہاں اسلام کو چھٹی دے دی جاتی ہے۔ کیونکہ اب فائدہ ہمارا ہے، دین کی بات بعد میں۔ افسوس اور نہایت ہی افسوس کی بات ہے۔یہی تو منافقت ہے۔ایک طرف ہم نبی ﷺ کی سنت کا حوالہ دیتے ہیں، اور دوسری طرف ان کی سنت کے بالکل خلاف رسموں پر عمل کرتے ہیں۔
حق مہر: فرض ،جہیز: ظلم
اسلام نے حق مہر کو ایک لازمی فریضہ بنایا ہے تاکہ عورت کو اس کی عزت، خودمختاری اور مقام ملے۔ یہ ایک نشانی ہے کہ عورت خریدی نہیں جا رہی، بلکہ عزت سے رخصت کی جا رہی ہے۔جہیز؟ وہ تو ایک ظلم ہے جو لڑکی کے خاندان پر مسلط کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا کاروبار، جو شادی کو بوجھ بنا دیتا ہے۔اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ظلم میں زیادہ پڑھے لکھے گھرانے بھی شامل ہیں۔
جہاں ایم بی اے، انجنئیر اور ڈاکٹر بیٹھ کر جہیز کی فہرستیں بناتے ہیں۔ کوئی نہیں کہتا کہ ہمیں صرف سنت کے مطابق نکاح چاہیے۔ہم لڑکی کے ماں باپ پر بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں تو سب کچھ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ یہاں تو اگر لڑکی جہیز کم لائے تو باتیں بنائی جاتی ہیں، طعنے دیے جاتے ہیں، اور بعض اوقات رشتہ ہی توڑ دیا جاتا ہے۔
آ خر جہیز لینے کے وقت ہماری دین داری کہاں چلی جاتی ہے؟حق مہر کی بات ہو تو ہر زبان پر دین کا نام، اور جہیز کی بات ہو تو رواج کا بہانہ۔کیا ہم صرف فائدے والے حصے پر اسلام اپناتے ہیں؟کیا نبی ﷺ کی تعلیمات صرف مہر تک محدود تھیں؟ دراصل ہم نے دین کو اپنی سہولت کا آلہ بنا لیا ہے۔اسلام جب ہمارا فائدہ کرے، تب زندہ،اسلام جب قربانی مانگے، تب خاموشی۔
مجھے تو لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں صرف اور صرف خواتین کا استحصال ہوتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ میں نے ذیادہ تر دیکھا ہے کہ جتنا حق مہر نکاح کے وقت مقرر کیا جاتا ہے وہ نہیں دیا جاتا یا اس کو کم کر کے دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جہیز دھڑلے سے مانگا اور لیا جاتا ہے۔جہیز کی لعنت نہ جانے کتنی بیٹیوں کی زندگی برباد کر چکی ہے۔کئی شادیاں صرف اس لیے نہیں ہوتیں کہ جہیز کم ہے۔کئی بیٹیاں سسرال میں کم لانے کا طعنہ سہتی ہیں۔کئی گھرانے قرض میں ڈوب جاتے ہیں، صرف اس لیے کہ "لوگ کیا کہیں گے"۔
یہ سب سن کر، دیکھ کر، سوچ کر میرا تو دل پوچھتا ہےکہ کیا یہی ہے وہ امت جو سب سے بہترین کہلائی؟کیا یہی ہے وہ معاشرہ جو محمد ﷺ کی امت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ کیا ہم نے کھبی سوچا ہے کہ تبدیلی کہاں سے آنی چا ہیے؟ یقیننا تبدیلی وہاں سے آئے گی جب لڑکے والے خود اعلان کریں کہ ہم جہیز نہیں لیں گے۔
لڑکی والے صاف انکار کریں کہ ہم جہیز نہیں دیں گے۔علماء کھل کر حق مہر اور جہیز کےاس مسئلے پر بولیں۔نوجوان نسل خود رسموں سے بغاوت کرے۔جب شادی نبی ﷺ کے طریقے پر ہو گی، سادگی سے ہو گی، دکھاوے سے نہیں تب ہی برکت ہو گی، محبت ہو گی، عزت ہو گی۔
اب فیصلہ ہمارا ہے۔کیا ہم صرف "حق مہر" کے وقت دیندار بننا چاہتے ہیں؟یا پورے دین پر عمل کرنا چاہتے ہیں؟ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ حق مہر دین ہے، جہیز کاروبار ہے۔اسلام مکمل دین ہے، ٹکڑوں میں نہیں۔اگر ہم سنت چاہتے ہیں، تو ہمیں دونوں طرف سنت اپنا نی ہوگی نہ صرف مہر میں، بلکہ جہیز میں بھی۔ تب ہی معلوم ہوگا کہ ہم دین دار ہیں یا کاروباری؟