پشاور کے 38 سالہ محمد حنیف، جو ایک پیٹرول پمپ پر مینجر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، حال ہی میں ڈینگی وائرس سے متاثر ہوئے۔ حنیف نے بتایا کہ انہیں دو دن سے بخار اور جسم میں شدید درد محسوس ہو رہا تھا۔ وہ ڈاکٹر کے پاس گئے جہاں انہیں انجیکشن لگائے گئے اور چند دوائیاں دی گئیں۔ تاہم بخار میں کمی نہ آنے پر جب انہوں نے دوبارہ چیک اپ کروایا تو ڈاکٹر نے ٹیسٹ تجویز کیے جن میں ان کا ڈینگی ٹیسٹ مثبت آیا۔
ڈاکٹر نے ادویات اور آرام کا مشورہ دیا۔ محمد حنیف نے ایک ہفتہ مکمل آرام کیا اور پیناڈول استعمال کرتے رہے۔ دوبارہ ٹیسٹ کروانے پر ان کے پلیٹ لیٹس میں بتدریج اضافہ دیکھا گیا جس کے بعد ان کی صحت میں نمایاں بہتری آئی۔ محمد حنیف نے بتایا کہ اب وہ مکمل صحت یاب ہو چکے ہیں، تاہم بیماری کے دوران ان کا 10 کلو وزن کم ہو گیا۔
محمد حنیف کی طرح صوبے میں بہت سے مریض ایسے ہیں جنہیں ڈینگی کے بعد وزن میں کمی، کمزوری اور عمومی صحت پر منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔
طبی ماہرین کے مطابق موجودہ موسمی حالات، مستقل نمی، مون سون کی بارشیں اور 18 سے 25 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان درجہ حرارت مچھروں کی افزائش کے لیے مثالی ماحول ہے۔
اسی لیے اکتوبر میں کیسز میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے، ان حالات میں مچھر تیزی سے بڑھتے ہیں، نیز بہت زیادہ یا بہت کم درجہ حرارت ان کی افزائش کی رفتار کو کم کر دیتا ہے۔
خیبرپختونخوا میں ڈینگی کی صورتحال
خیبرپختونخوا میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ڈینگی کے مزید 42 تصدیق شدہ کیسز سامنے آگئے ہیں، صوبے میں اس وقت ڈینگی کے فعال کیسز کی تعداد 310 تک پہنچ گئی ہے۔ خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت کے مطابق رواں سال ڈینگی سے متاثرہ کیسز کی کل تعداد 4 ہزار 6 ہیں۔ اسی طرح گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ڈینگی سے متاثرہ 28 نئے مریض مختلف ہسپتالوں میں داخل ہوئے ہیں۔ محکمہ صحت کے مطابق صوبے کے مختلف ہسپتالوں میں اس وقت ڈینگی کے زیر علاج مریضوں کی تعداد 48 ہے۔ رواں سال ڈینگی کے کل 1 ہزار 668 مریض ہسپتال میں داخل کئے گئے۔ ڈینگی سے متاثرہ 3 ہزار 694 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں، رواں سال ڈینگی سے 2 مریضوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اب تک دو افراد ڈینگی بخار کی وجہ سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔
ڈینگی وائرس کی علامات
ڈاکٹر فیاض کے مطابق ڈینگی ایک وائرل ڈیزیز ہے مطلب یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ایک خاص مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ اس کی علامات میں یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کو سخت بخار چڑھ جاتا ہے، جسم میں شدید درد محسوس ہوتا ہے۔ آنکھوں کا درد، جوڑ اور اسی طرح بدن کا گوشت بھی درد محسوس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ الٹیاں کرنا، پیٹ میں درد ابھر آنا یا جسم کے مختلف حصوں پر خاص قسم کے نشانات رونما ہونا وغیرہ ڈینگی وائرس کے علامات میں شامل ہیں۔
یہ ڈینگی مادہ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔ نر سے ملاپ کے مادہ کو انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ یہ پروٹین حاصل کرنے کے لیے انسانی خون چوستی ہے جس سے ڈینگی کا انفیکشن پھیلتا ہے۔ ایڈیِز ایجپٹی مچھر کے انڈوں اور لاروے کی پرورش صاف اور ساکت پانی میں ہوتی ہے جس کے لیے موافق ماحول عام گھروں کے اندر موجود ہوتا ہے۔
متاثرہ شخص کا وائٹ بلڈ سیل یعنی سفید خون بھی کم ہو جاتا ہے جو کہ تشویشناک ہوتا ہے۔ ایک اہم فیکٹر یہ بھی ہے کہ ڈینگی مچھر جس بندے کو کاٹے تو تقریبا دو ہفتے بعد انہیں ان علامات کا پتا چل جاتا ہے۔ بہت سارے متاثرہ افراد خود بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں تاہم جو وقت پر علاج نہ کریں تو وہ تشوشناک حالت میں جا سکتے ہیں۔
ڈینگی وائرس کی روک تھام کیسے کریں؟
ڈاکٹر فیاض کے مطابق ڈینگی وائرس کی روک تھام کے لیے پہلے تو ضروری ہے کہ جو شخص ڈینگی سے متاثر ہو چکا ہو تو انہں چاہیئے کہ ڈاکٹرز کی ہدایت کے مطابق کریم یا پاوڈر لگایا کریں تاکہ دوسرے مچھر انکو نہ کاٹے۔ اس سے یہ بیماری پھیلنے سے روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
اسی طرح ڈینگی کے مرض سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ کسی بھی جگہ پانی جمع نہ ہونے دیا جائے۔ ماہرین کے مطابق عام طور پر لوگوں کی توجہ صرف گندے پانی کی جانب جاتی ہے لیکن صاف پانی بھی اس مرض کو پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح بارش کے بعد اگر گھروں کے آس پاس یا لان، صحن وغیرہ میں پانی جمع ہو تو اسے فوراً نکال کر وہاں سپرے کرنے سے ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی اور ڈینگی کا عالمی پھیلاؤ
ماحولیاتی تبدیلی ویکٹر سے پھیلنے والی بیماریوں جیسے ڈینگی کے پھیلاؤ میں بڑا خطرہ بن رہی ہے ماحولیاتی ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث دنیا کے وہ علاقے بھی متاثر ہو رہے ہیں جہاں پہلے یہ بیماریاں عام نہیں تھیں۔
عالمی ادرہ صحت ڈبلیو ایچ او کی رہورٹس کے مطابق دنیا کی تقریباً نصف آبادی اب ڈینگی کے خطرے میں ہے، جس کے سالانہ 100 سے 400 ملین انفیکشن ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ڈینگی دنیا کی تیزی سے پھیلنے والی وائرل بیماریوں میں سے ایک ہے اور سالانہ 390 ملین افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
جن میں سے تقریباً 96 ملین افراد کو طبی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق، ڈینگی سے دنیا بھر میں 20,000 سے زائد اموات ہوتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی نے ڈینگی جیسے خطرناک ویکٹر سے پھیلنے والے امراض کو مزید بڑھا دیا ہے۔