ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
بیٹیوں کی تربیت میں حقیقت اور شعور کا پہلو نظر انداز کیوں؟ Home / بلاگز,عوام کی آواز /

بیٹیوں کی تربیت میں حقیقت اور شعور کا پہلو نظر انداز کیوں؟

سپر ایڈمن - 06/10/2025 121
بیٹیوں کی تربیت میں حقیقت اور شعور کا پہلو نظر انداز کیوں؟

ایزل خان

 

میں نے ہمارے معاشرے میں ایک بات بڑی شدت سے محسوس کی ہے کہ شادی سے پہلے لڑکیوں کو بہت کچھ سکھایا جاتا ہے، جیسے کھانے پکانے کی ترکیبیں، گھر کے کام کاج کے طریقے، شوہر اور سسرال کو خوش رکھنے کے طور طریقے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ زندگی کی اصل حقیقتوں اور کٹھن آزمائشوں کے لیے ذہنی اور جذباتی تیاری نہیں کرائی جاتی۔ نہ مائیں اس پر اپنی بیٹیوں سے بات کرتی ہیں، نہ خاندان۔ 

 

یہی حال تقریباً ہر گھر کا ہے۔ مجھے شادی کے بعد جب ایسے کئی حالات کا سامنا ہوا جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا، تب جا کر یہ حقیقت سمجھ آئی۔ ان حالات نے مجھے مضبوط بنایا مگر اکثر سوچتی ہوں کہ آخر مائیں اپنی بیٹیوں کو یہ کیوں نہیں سکھاتیں؟ وہ تو اپنی زندگی کے تلخ تجربات اور حقیقتوں سے گزرتی ہیں، پھر بھی بیٹیوں کو مضبوط عورت بنانے میں کیوں ناکام رہتی ہیں؟

 

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ شادی کے بعد زندگی ہمیشہ خوابوں جیسی نہیں ہوتی۔ ایسے حالات سامنے آتے ہیں جن کے بارے میں لڑکی کو شادی سے پہلے کچھ نہیں بتایا جاتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتی ہے تو حقیقت کے سامنے گھبراہٹ، خوف، بے بسی یا ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہے۔ 

 

مثال کے طور پر، اگر شوہر کی نوکری اچانک چلی جائے تو بیوی کو کس طرح اس کا ساتھ دینا چاہیے؟ کیا وہ صرف رونے دھونے پر اکتفا کرے یا حالات کو سمجھتے ہوئے شوہر کا حوصلہ بڑھائے؟ ایسے وقت میں عورت کا کردار بے حد اہم ہوتا ہے۔ یہ وقت الزام تراشی یا شکوہ شکایت کا نہیں بلکہ عملی حکمتِ عملی اپنانے کا ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ شادی سے پہلے یہ سبق نہیں سکھایا جاتا، اسی لیے اکثر خواتین ٹوٹ جاتی ہیں اور گھر کا سکون برباد ہو جاتا ہے۔

 

اسی لیے ضروری ہے کہ بیٹیوں کو یہ سکھایا جائے کہ مالی طور پر خودمختار کیسے بننا ہے۔ محنت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اگر شوہر کما کر بیوی اور بچوں کی ضروریات پوری کرتا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن عورت کو بھی کوئی نہ کوئی ہنر ضرور آنا چاہیے۔ تاکہ اگر برا وقت آ جائے تو وہ شوہر کا بازو بن سکے، دوسروں سے مانگنے یا شکایت کرنے کے بجائے اپنی محنت سے اپنے گھر اور بچوں کی ضروریات پوری کرے۔

 

 یہی وہ خلا ہے جس کے باعث خواتین مشکل امتحانوں میں بے بس ہو جاتی ہیں۔ والدین اور خاندان صرف خوشیوں کے خواب دکھاتے ہیں، مگر اصل زندگی کی حقیقتوں سے آگاہ نہیں کرتے۔

 

اگرچہ کچھ خواب کسی حد تک سچ ثابت ہو جاتے ہیں، لیکن سب لڑکیوں کے لیے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ہر شادی شدہ زندگی میں کوئی نہ کوئی موڑ ضرور آتا ہے جہاں عورت کو جذباتی اور مالی طور پر خود کو مضبوط بنانا پڑتا ہے۔ اگر وہ پہلے سے آگاہ ہو تو بہادری سے حالات کا سامنا کر لیتی ہے، ورنہ جیسا کہ ہم اکثر سنتے ہیں، کوئی لڑکی زہر پی کر جان دے دیتی ہے یا انتہائی قدم اٹھا لیتی ہے۔

 

ظلم و زیادتی کا سامنا بھی شادی شدہ زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے، جسے نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اگر شوہر یا سسرال کی طرف سے ظلم ہو تو عورت کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا خاموشی اختیار کرے یا اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرے؟ کیا اسے قانونی اور سماجی مدد حاصل کرنے کا حوصلہ دیا جاتا ہے؟ بدقسمتی سے زیادہ تر خواتین کو یہ نہیں سکھایا جاتا، اس لیے وہ یا تو ظلم سہتی رہتی ہیں یا پھر انتہائی قدم اٹھاتی ہیں۔ ظلم سے مراد روزمرہ کے چھوٹے جھگڑے نہیں بلکہ ذہنی اذیت، تشدد، گالیاں اور ضروریات پوری نہ کرنا شامل ہیں۔

 

آج کی تعلیم یافتہ لڑکیوں کو یہ سب سہنا فطری طور پر غلط لگتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ ایسے حالات کو برداشت کرنا اپنے ساتھ ظلم کرنے کے مترادف ہے اور دوسروں کو یہ باور کرانے کے برابر ہے کہ یہ سب نارمل ہے۔ ایسے وقت میں عورت کو ڈٹ کر بات کرنی چاہیے، سامنے والے کو روکنا چاہیے، اور اگر حالات پھر بھی نہ بدلیں تو گھر کے بڑوں کو شریک کرنا چاہیے۔ لیکن ظلم برداشت نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اکثر خواتین اس خوف سے پیچھے ہٹ جاتی ہیں کہ کہیں طلاق نہ ہو جائے یا لوگ کیا کہیں گے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ جب عورت قصوروار نہیں تو برداشت اور سمجھوتا کیوں؟ ساری عمر ذہنی اذیت میں گزارنے سے بہتر ہے کہ باعزت زندگی کا فیصلہ کیا جائے۔

 

یہ تمام سوالات ہمارے تعلیمی اور خاندانی نظام پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ کیوں شادی سے پہلے صرف خوشیوں کے خواب دکھائے جاتے ہیں؟ کیوں لڑکیوں کو حقیقت نہیں بتائی جاتی؟ کیا یہ ظلم نہیں کہ ہم اپنی بیٹیوں کو سنہری خوابوں کے سہارے عملی زندگی کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ شادی صرف پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر بھی ہو سکتی ہے۔

 

 اگر عورت ذہنی اور جذباتی طور پر تیار ہو تو وہ ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتی ہے، لیکن اگر صرف خیالی دنیا میں رکھی جائے تو ذرا سی آزمائش میں ٹوٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل بہت سی لڑکیاں شادی کے چند سال بعد شدید ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کوئی خودکشی کو حل سمجھتی ہے، کوئی خلع لیتی ہے اور کوئی غلط راستے پر نکل پڑتی ہے۔

 

کیا یہ ہماری اجتماعی ناکامی نہیں؟ کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم اپنی بیٹیوں کو یہ سکھائیں کہ زندگی ہمیشہ آسان نہیں ہوتی؟ اصل کامیابی مشکلات کا سامنا کرنے میں ہے، ان سے بھاگنے میں نہیں۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کو مضبوط بنانا ہوگا، شعور دینا ہوگا اور حقیقت سے روشناس کرانا ہوگا۔

 

ہمارے معاشرے میں شادی کو اکثر ایک "اینڈ گول" کے طور پر دکھایا جاتا ہے، جیسے اس کے بعد سب مسائل ختم ہو جائیں گے۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ شادی زندگی کا آغاز ہے اور اس کے بعد آنے والے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیاری لازمی ہے۔ بیٹیوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ اگر شوہر پر برا وقت آ جائے تو اس کے ساتھ کھڑی ہوں، اگر بچہ معذور پیدا ہو تو پرورش کو ذمہ داری سمجھیں، اگر بیماری آئے تو ہمت نہ ہاریں، اور اگر ظلم ہو تو آواز بلند کریں۔

 

یہ وقت ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں کی تربیت کے نئے اصول وضع کریں۔ انہیں صرف کھانا پکانے یا کپڑے سینے کے ہنر نہیں بلکہ زندگی کے کڑوے سچ، مشکل راستے اور عملی فیصلے کرنے کی ہمت بھی دینا ہوگی۔ انہیں یہ باور کرانا ہوگا کہ مشکل وقت زندگی کا حصہ ہے، لیکن مضبوط عورت ہر طوفان کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

 

سوال یہ ہے: کیا ہم اپنی بیٹیوں کو حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار کریں گے؟ کیا ہم انہیں یہ سکھائیں گے کہ مشکلات حل کرنے کے لیے ہیں، بھاگنے کے لیے نہیں؟ یا پھر ان کے ذہنوں میں صرف خوشیوں کے خواب بھرتے رہیں گے؟ یہی وہ سوالات ہیں جن پر غور اور عملی اقدامات وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔