ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
پشاور: آل سینٹ چرچ دھماکے کے متاثرین 12 سال بعد بھی امداد کے منتظر Home / خیبر پختونخوا,عوام کی آواز /

پشاور: آل سینٹ چرچ دھماکے کے متاثرین 12 سال بعد بھی امداد کے منتظر

سپر ایڈمن - 22/09/2025 262
پشاور: آل سینٹ چرچ دھماکے کے متاثرین 12 سال بعد بھی امداد کے منتظر

خیبرپختونخوا حکومت نے دہشتگردی سے متاثرہ اقلیتی خاندانوں کی مالی معاونت کا فیصلہ کرلیا ہے۔  لیکن پشاور میں موجود اقلیتی برادری کا کہنا ہے کہ یہ اعلانات محض دعوؤں تک محدود  ہیں اور عملی طور پر ان کی حالت بہتر نہیں ہوتی۔ وہ اب بھی خوف، غربت اور عدم تحفظ میں زندگی گزار رہے ہیں۔


آل سینٹ  چرچ کوہاٹی گیٹ  22 ستمبر 2013 کو دہشتگردی کا نشانہ بنا جس میں 100 سے زائد مسیحی برادری کے لوگ جان سے گئے جبکہ 122 سے زائد زخمی ہوئے۔ نادر مسیح بھی انہی زخمیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے جسم پر آج بھی اس دھماکے کے زخم کے نشانات موجود ہیں۔  نادر مسیح کا کہنا ہے کہ آج تک اس واقعے کے اثرات ان کے دلوں میں موجود ہیں، جس کی وجہ سے کئی مسیحی خاندان یہ شہر چھوڑ چکے ہیں۔


نادر مسیح نے بتایا کہ "اس دن ہم عبادت کرکے اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ مل رہے تھے۔ ہمارے  وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم لوگوں کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آئے گا اور اچانک دھماکہ ہوگیا۔ وہ قیامت کا سماء تھا۔ میں اپنے دوست کے ساتھ کھڑا تھا جب اس کی چھوٹی بیٹی اپنے والد سے سائیکل لینے کا پوچھ رہی تھی۔ کیا وہ آج اس سائیکل کو یاد کرتی ہے یا نہیں؟ کہ اس دن میرے بابا سائیکل لینے جارہے تھے. ایسا کبھی بھی ممکن نہیں، اس لیے کہ ان کا کفالت کرنے والا کوئی نہیں بچا۔  بہت دکھ ہوتا ہے اس بات کا"۔

 
آل سینٹ چرچ دھماکے کے بعد حکومت نے متاثرین کو کمپنسیٹ کرنے کے لیے 20 کروڑ انڈوومنٹ فنڈ کا اعلان کیا تھا تاہم 12 برس بیت جانے کے بعد بھی مسیحی برادری امداد کے منتظر ہیں۔ پشاور کے رہائشی مسیحی برادری کا کہنا ہے کہ حکومت کے بار بار اعلانات کے باوجود نظرانداز ہونے پر مسیحی برادری مایوسی اور احساس کمتری کا شکار ہوچکے ہیں۔


اسی حوالے سے پشاور کے مسیحی برادری اور  چرچ دہشتگردی سے متاثرہ خاندانوں نے گزشتہ روز اتوار کے دن پشاور پریس کلب کے سامنے صبح 10 بجے سے شام 6 بجے تک احتجاجی کیمپ لگایا اور حکومت سے اپنے وعدے پورا کرنے کا مطالبہ کیا۔

 
انیل مسیح نے بتایا کہ " اقلیتی برادی تعداد میں کم ہے اس لیے ہم کسی سے اپنا حق پوچھ سکتے ہیں اور نا مانگ سکتے ہیں۔ ویسے بھی یہ بڑے لوگ ہیں، کون ان سے پوچھ سکتا ہے کہ آپ ہمیں اپنا حق کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ ہم جتنا بھی شور ڈالے، پریس کانفرنس کرے ، جیسے مختلف عہدیداروں اور ذمہ دار اشخاص نے وعدہ کیا تھا کہ اپ لوگوں کو پیسے اور زمینیں بھی دونگا لیکن وہ آج تک نہیں ملی۔ ہم نے جلسے جلوس کیے لیکن ہمیں کسی نے نہیں سنا۔ حکومت صرف کہنے کے لیے آتی ہے، کہتی ہے بولتی ہے اور پھر اس کے بعد کچھ نہیں ہوتا" ۔

 
آل سینٹ چرچ دہشتگردی کے متاثرین کی بحالی کے لیے ایکٹ 2020 میں منظور ہوا تھا اور اس کے قواعد 2021 میں نافذ کئے گئے تھے۔ تاہم غیر مستحکم سیاسی صورتحال، طویل عرصے تک نگران حکومت اور  عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ عمل معطل رہا اور اسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔


دوسری جانب اب خیبرپختونخوا حکومت نے اس عمل کو دوبارہ فعال کر کے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف فراہم کرنے کی سنجیدہ کوشش شروع کر دی ہے۔

 
محکمہ اوقاف و مذہبی امور خیبرپختونخوا نے 2013 سے اب تک کے تمام متاثرہ خاندانوں کا ڈیٹا جمع کرنے کے لیے صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو باضابطہ طور پر ایک خط ارسال کیا ہے۔


وزیر زادہ، وزیراعلی کا فوکل پرسن برائے اقلیمتی امور کا کہنا ہے کہ "ہماری حکومت کے جانے کے بعد ایکٹ 2020 کے مطابق نگران حکومت نے اس پر کام کرنا تھا لیکن 2022 سے 2024 تک وقت ضائع کیا گیا۔ اب ہماری اس حکومت میں ہم نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ایک نوٹیفیکشن کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ جو سال 2013 سے دہشتگردی کے شکار اقلیتی برادری کا دس دنوں میں ڈیٹا جمع کرے گے۔ وزیراعلی اس مسئلے میں سنجیدہ ہے اور چاہتے ہیں کہ اس بار اقلیتی برادری کو امداد مل سکے"۔

 
خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے دہشتگردی سے متاثرہ اقلیتی برادری کو امسال اکتوبر کے مہینے میں اس کا آغاز کیا جائے گا۔ جس کے تحت بیواؤں، زخمیوں اور جانبحق افراد کے لواحقین کو عمر بھر کے لیے مخصوص فنڈز دیے جائنگے۔

 
دوسری جانب پشاور کی مسیحی برادری آج بھی بے یقینی کا شکار ہیں اور  حکومت سے مایوسی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔


مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے اعجاز جارج کا کہنا ہے کہ بہت سارے لوگ اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ مایوس ہیں۔

 
" جن سے امداد کے حوالے سے بات کرتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ صرف زخم تازہ کرنے والی بات ہے لیکن اثر کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے پوری براردری بات کرنے سے انکار کرتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایسے بہت سارے لوگ آتے ہیں، وعدے کرتے ہیں۔ انہوں نے آپ کو دروازے پر ہی کہہ دیا کہ ہم بات نہیں کرنا چاہتے"۔

تازہ ترین