کیف آفریدی
پشاور چارسدہ روڈ کے رہائشی کسان عبدالرشید، جو گزشتہ چار دہائیوں سے زمینداری کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ دو سال سے مسلسل ہائبرڈ جوار کی فصل کاشت کر رہے ہیں، جس سے انہیں خاطر خواہ منافع حاصل ہو رہا ہے۔
ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہائبرڈ جوار کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے اور اس کے دانے دیسی مکئی کے مقابلے میں بڑے اور بہتر ہوتے ہیں۔ فصل کی کاشت کے لیے وہ ٹریکٹر کا استعمال بھی کرتے ہیں اور بعض مراحل میں ہاتھ سے بھی بیج بویا جاتا ہے۔ بعد ازاں فصل پر سپرے بھی کرایا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہائبرڈ جوار موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی بہتر مقابلہ کرتی ہے۔ ماضی میں دیسی جوار جب تیز دھوپ اور گرمی کا سامنا کرتی تھی تو خراب ہو جاتی تھی، تاہم ہائبرڈ جوار میں یہ خوبی ہے کہ یہ شدید گرمی کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ البتہ ہائبرڈ جوار کو دیسی کے مقابلے میں زیادہ پانی درکار ہوتا ہے، جس کا وہ خاص طور پر خیال رکھتے ہیں۔
عبدالرشید کا کہنا تھا کہ فی ایکڑ بہتر پیداوار کے حصول کے لیے مکئی کا بیج 40 کلوگرام، سدابہار 15 کلوگرام، اور جوار کا بیج 30 کلوگرام استعمال کیا جائے۔ ان کے مطابق مکئی کی فصل اپریل سے ستمبر تک کاشت کی جا سکتی ہے۔
صوبائی حکومت کی طرف سے محکمہ زراعت فصلوں کے مختلف ایشوز پر کاشتکاروں کے لیے ٹرینگ کا انعقاد کراتے ہیں اور ان کو نئے طریقہ کار سیکھاتے ہیں کہ کیسے یہ اپنی فصل کو موسمیاتی تغیر سے بچائے۔
جنگلی زیتون کے درختوں پر قلمکاری کی مہم
موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے لیے کسان مختلف طریقے اپنا رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی فصلوں کو محفوظ بنانے کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی اس حوالے سے مثبت اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ وزیر زراعت خیبرپختونخوا، میجر (ر) محمد سجاد خٹک کی خصوصی دلچسپی کے نتیجے میں ضلع خیبر میں جنگلی زیتون کے درختوں پر قلمکاری کی مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے۔
اس مہم کے تحت صرف ضلع خیبر میں ایک لاکھ سے زائد جنگلی زیتون کے درختوں پر قلمکاری کر کے انہیں معیاری زیتون کے درختوں میں تبدیل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے زخہ خیل کے علاقے تورہ ویلہ (VC-44) میں ایک تربیتی ورکشاپ منعقد کی گئی، جس میں مقامی افراد کو قلمکاری کی عملی تربیت دی گئی۔ تربیت مکمل ہونے کے بعد باقاعدہ مہم کا آغاز کیا گیا، جس میں محکمہ زراعت کے افسران اور مقامی افراد نے بھرپور شرکت کی۔ افتتاحی تقریب میں محکمہ زراعت خیبر کے افسران، عابد شاہ، رضا خان، اور شیندی گل آفریدی شریک تھے۔
ڈائریکٹر زراعت خیبر، ضیاء الاسلام داوڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے قبائلی اضلاع کے لیے مجموعی طور پر دو لاکھ سے زائد جنگلی زیتون کے درختوں کی قلمکاری کا ہدف مقرر کیا ہے، جن میں سے ایک لاکھ درخت صرف ضلع خیبر میں قلم کئے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہدف ایک ماہ کے اندر مکمل کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس مہم سے نہ صرف مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے بلکہ اس کے مثبت اثرات علاقے کے ماحول اور زراعت پر بھی مرتب ہوں گے۔ زیتون کی کاشت کے فروغ سے مقامی معیشت مضبوط ہوگی جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔
مقامی افراد نے محکمہ زراعت کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے سے علاقے کی سرسبز و شاداب زمینوں میں اضافہ ہوگا اور زیتون کی پیداوار سے مالی فوائد حاصل ہوں گے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے زیتون کی کاشت ایک مؤثر اور دیرپا حل ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے دوچار دنیا کے پانچ سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ اگرچہ پاکستان کا عالمی کاربن اخراج ایک فیصد سے بھی کم ہے، تاہم اس کے باوجود پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں نہ صرف درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس کے اثرات ہماری زراعت اور فوڈ سکیورٹی پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ وقت پر بارشیں نہ ہونے سے گندم کی فصل متاثر ہوتی ہے، جب کہ طوفانی بارشوں اور آندھیوں سے مکئی کی فصل کو نقصان پہنچتا ہے۔
خیبرپختونخوا میں کراپ رپورٹنگ سروس کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے، شدید خشک سالی، اور طوفانی بارشوں کے باعث صوبے کی زراعت کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
فصلوں کو موسمیاتی تبدیلی سے کیسے بچائیں؟
ٹی این این نے زرعی یونیورسٹی پشاور کے ڈپٹی ڈائریکٹر کلائمٹ چینج سینٹر، ڈاکٹر ہارون خان سے فصلوں کی موسمیاتی مزاحمت رکھنے والی اقسام کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
ڈاکٹر ہارون کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرارت، شدید گرمی اور خشک سالی فصلوں کی پیداوار میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر اور پاکستان میں بھی موسمیاتی تبدیلی کے مطابق بیجوں کی تیاری پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
اس شعبے میں ترقی کا مقصد ایسی فصلوں کی اقسام تیار کرنا ہے جو گرمی، خشک سالی اور دیگر ماحولیاتی دباؤ کو برداشت کر سکیں۔ گندم، چاول، اور مکئی کی ایسی اقسام تیار کی گئی ہیں جو شدید گرمی میں بھی بہتر پیداوار دیتی ہیں۔
اسی طرح، بایو ٹیکنالوجی اور جینیاتی انجینیئرنگ کا استعمال اگرچہ پاکستان میں ابھی محدود ہے، لیکن یہ ٹیکنالوجیز گرمی اور خشک سالی کے خلاف فصلوں کی مزاحمت بڑھانے میں امید افزا ثابت ہو سکتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے آیف ڈبلیو او کے مطابق موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر میں زراعت کو متاثر کر رہی ہے جس کے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار میں کمی اور کاشتکاری کے نظام میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔
عالمی سطح پر فصلوں کی پیداوار میں ہر سال تقریباً ٪2 تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ ایف اے او کے مطابق 2050 تک موسمیاتی تبدیلی کی شدت زراعت کے شعبے میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصانات کا سبب بن سکتی ہے جس سے فوڈ سیکیورٹی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔