سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے انکشاف کیا ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر میں 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں، جن میں سب سے زیادہ متاثرین پنجاب اور سندھ کے اضلاع سے ہیں۔
اجلاس چیئرپرسن شیری رحمٰن کی زیر صدارت میں ہوا، جس میں سیلاب متاثرین کی موجودہ صورتحال اور امدادی اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے بریفنگ میں بتایا کہ ملک میں 50 سے زائد گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور مختلف مقامات پر گلاف (برفانی جھیل پھٹنے کے واقعات) آبادیوں کے قریب پیش آچکے ہیں۔ تاہم، مؤثر ارلی وارننگ سسٹمز کی کمی اب بھی بڑا چیلنج ہے۔
شیری رحمٰن نے اجلاس میں انکشاف کیا کہ ارلی وارننگ سسٹمز پر صرف 15 فیصد بجٹ خرچ کیا گیا جبکہ گلاف ٹو منصوبے کا 30 فیصد حصہ انتظامی اخراجات پر صرف ہوا۔ انہوں نے یو این ڈی پی اور وزارت ماحولیات کی کارکردگی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں عوامی سماعتیں کرائی جائیں اور حساس وادیوں کی فوری نقشہ بندی کی جائے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کی 24 وادیاں شدید خطرے کی زد میں ہیں جبکہ 36 مقامات پر ہنگامی اقدامات ناگزیر ہیں۔ کمیٹی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ بعض علاقوں میں وارننگ ٹاور ہی نصب نہیں کئے گئے، جس کے باعث بروقت معلومات متاثرہ آبادیوں تک نہیں پہنچ سکیں۔
کمیٹی نے گلاف ٹو منصوبے کی سست روی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2017 میں شروع ہونے والا منصوبہ تاحال مکمل طور پر فعال نہیں ہوسکا۔
شیری رحمٰن نے مطالبہ کیا کہ 2022 کی طرز پر متاثرہ خاندانوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے فوری مالی امداد فراہم کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ "منی بجٹ پر وقت ضائع کرنے کے بجائے عالمی امداد کو مؤثر بنایا جائے اور متاثرین کو شفاف انداز میں ریلیف پہنچایا جائے۔"