رفاقت اللہ رزڑوال
چارسدہ کے گاؤں حسین آباد سے تعلق رکھنے والے مرجان علی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے ڈینگی وارڈ میں اپنے ساٹھ سالہ بھائی کے بسترِ علالت کے قریب کھڑے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "بخار نے میرے بھائی کو تین دن سے نڈھال کر دیا ہے، جب ہسپتال آئے تو ٹسٹ میں پلیٹ لیٹس خطرناک حد تک گرچکے تھے۔ اب وہ محض اللہ کے سہارے جی رہے ہیں"۔
یہ کہانی صرف مرجان علی کے بھائی کی نہیں بلکہ چارسدہ کے ہسپتالوں کے ڈینگی وارڈز کی عام سی تصویر ہے، یہاں بیڈز کم پڑ گئے ہیں، مریضوں کا رش بڑھ رہا ہے اور ہسپتال عملے پر دباؤ بھی بڑھ چکا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق مریضوں کی تعداد اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ عملہ ہر وقت ایک جنگ کی حالت میں نظر آتا ہے۔ ایک ڈاکٹر اور ایک نرس کے ذمے کئی کئی مریضوں کی جانیں ہیں۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ صرف ڈیڑھ ماہ کے دوران چارسدہ میں ڈینگی کے 784 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور دو افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ لیکن اصل تعداد شاید اس سے کہیں زیادہ ہو، کیونکہ دیہی علاقوں میں علاج تک رسائی نہ ہونے کے باعث بہت سے مریض خاموشی سے دم توڑ دیتے ہیں۔
ٹی این این کی ٹیم کو متعلقہ ڈاکٹر نے وارڈوں کا وزٹ کرایا جہاں پر تشویشناک امر یہ تھا کہ وارڈوں میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ نظر آ رہی تھی۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق مریضوں کے بڑھتے دباؤ کو سنبھالنے کے لیے میڈیکل وارڈز کو بھی ڈینگی وارڈز میں بدلنا پڑا۔ مگر اس کے باوجود جگہ ناکافی ہے۔
مرجان علی کہتے ہیں "اگر ڈاکٹروں اور نرسز کی تعداد بڑھائی جائے تو مریضوں کو بہتر توجہ مل سکتی ہے۔"
تاہم ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال چارسدہ کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جاوید ستار کہتے ہیں "ہمارے پاس ایک وقت میں پچاس سے زائد مریض داخل ہوجاتے ہیں، بیڈز اور دواؤں کی قلت ہے، مگر ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ جانیں بچائی جاسکیں۔"
وہ مزید بتاتے ہیں کہ اکثر اوقات مریضوں کے لواحقین، خاص طور پر خواتین، عملے پر غصہ نکالتی ہیں کیونکہ انہیں اپنے پیاروں کے لیے بیڈ یا دوائیں نہیں ملتیں۔ "ہم یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ شکوے ایک بڑے درد کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔"
ڈاکٹر جاوید کے مطابق اگر ہر مریض کو وافر مقدار میں دوا دینی ہو تو ہمارے لئے ماہانہ ایک کروڑ روپے کی ادویات کی ضرورت ہے مگر 2025-26 کے بجٹ میں صوبائی حکومت کی جانب سے 4 کروڑ روپے منظور ہونے کے باوجود ابھی تک نہیں ملے ہیں۔
چارسدہ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ ڈینگی کوئی نیا مرض نہیں مگر حکومت ہمیشہ اس وقت جاگتی ہے جب وبا قابو سے باہر ہو جاتی ہے۔ عرفان اللہ، ایک مقامی باشندہ، شکوہ کرتے ہیں"ہر گلی میں پانی جمع ہے، مچھر کم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھ رہے ہیں۔"
اس صورتحال میں محکمہ صحت نے متاثرہ علاقوں میں ڈرون کے ذریعے سپرے اور مچھر دانیوں کی تقسیم شروع کی ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر واسع اللہ خان کہتے ہیں "ڈٰینگی سے لڑنے کے لئے عوام کا تعاؤن ناگزیر ہے، عوام خود کھڑا پانی ضائع کریں، صبح شام مچھروں سے بچاؤ کے اقدامات کریں اور یہی ہماری سب سے بڑی ڈھال ہوگی۔"
انہوں نے مزید بتایا کہ متاثرہ مریضوں میں گھر گھر مچھردانیاں تقسیم کئے گئے ہیں اور ضلع بھر میں صبح و شام لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے سفارشات دیئے گئے ہیں جس پر 16 ستمبر سے عمل درامد شروع ہوجائے گا تاکہ بجلی سے چلنے والے پنکھوں کی ہوا سے مچھر مزید نہ پھیل سکیں۔
محکمہ صحت کی جانب سے چارسدہ کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ رجڑ اور ماجوکی کے جوہڑوں اور تالابوں میں ڈرون کے ذریعے مچھر مار سپرے کا عمل جاری ہے تاکہ یہ وائرس مزید نہ پھیل سکیں۔
دوسری جانب لنڈی کوتل میں ملیریا کی وبا شدت اختیار کر گئی ہے، ایک ماہ کے دوران ایک ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ پسید خیل، آشخیل، سلطان خیل اور ولی خیل سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں۔ عوام نے بروقت فوگ اسپرے اور صفائی نہ ہونے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر فیصل کمال کے مطابق مریضوں کو مفت تشخیص و علاج فراہم کیا جا رہا ہے اور جلد جگہ جگہ سپرے کرایا جائے گا۔