محمد سلمان
یاسر خلیل تہکال پایاں شہید آباد کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے ، پیشے کے لحاظ سے وہ فرنیچر پالش کا کام کرتا ہے اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے انہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا بھی لیا ہوا تھا جہاں انہوں نے اپنے موبائل نمبر کے ساتھ مختلف قسم کے ایڈز وغیرہ لگائے تھے۔
اسلام آباد کے ایک علاقہ میں اپنے دوست کے ساتھ دکان کھولنے ہی والے تھے کہ اس دوران ان کو واٹس ایپ پر ایک کال آ جاتی ہے کہ ہمارے ہاں بے پناہ فرنیچر کا کام ہے اور ہمیں ایک فرنیچر کاریگر کی ضرورت ہے دونوں کے درمیان ریٹ سب کچھ معاملات طے ہو جاتے ہیں اور پھر یاسر خلیل کو پنڈی بلا لیتے ہیں۔
یاسر خلیل کے مطابق جب وہ ان سے ملاقات کے لیے پنڈی چلے جاتے ہیں تو وہاں ان کو جوس دیا جاتا ہے ،جس میں پہلے ہی سے نشہ اور اشیاء شامل ہوتی ہیں یوں جوس پینے کے بعد وہ بے ہوش ہو جاتا ہے اور انہیں اغوا کر لیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا اغوائیگی کے بعد وہ آگے 10 بندوں پر فروخت ہوتا ہے، ایک گھنٹہ موٹر سائیکل پر ریگستانوں سے ہوتے ہوئے وہ ایک نامعلوم مقام پر پہنچا دیتے تھے اور وہاں سے پھر کشتی کے ذریعے ایک دوسرے مقام پر پہنچا دیا۔
بہرحال آخر میں ہمارے پاؤں میں زنجیریں ڈالی گئی اور ایک قبر نما جگہ میں ہمیں ڈالا گیا میں نے جب ان سے پوچھا کہ کون سی جگہ ہے تو انہوں نے بتایا کہ یہ کچے کا علاقہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے موبائل فون سے میرے گھر والوں کے نمبر لیے گئے اور ان سے بھاری تاوان کا مطالبہ کیا گیا میں نے ان سے کہا کہ میں تو غریب آدمی ہوں میرے پاس تو 100 روپے بھی نہیں ہے ان کا جواب تھا کہ ہم تو یہاں ملنگ اور فقیر سے بھی پیسے لے لیتے ہیں تم کیا چیز ہو ان 50 روز قید کے دوران مجھ پر جو گزری وہ صرف میں ہی جانتا ہوں۔
یاسر خلیل کے والد ناصر خلیل کہتے ہیں کہ شروع میں اغوا کاروں نے ہم سے 75 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا پھر وہ کم ہو کر 50 لاکھ پر آگئے اور آخر میں پھر 25 لاکھ تاوان کا مطالبہ کیا اور نہ دینے کی صورت میں بیٹے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی اللہ جانتا ہے کہ میرے پاس تو 100 روپے بھی نہیں تھے ہم تو کرائے کے گھر میں رہ رہے ہیں۔
میں اپنے علاقے مشران خلیل قوم سمیت سیاسی رہنماؤں کا بھی بے حد مشکور ہوں کہ جنہوں نے اس اہم مسئلے پر میرا بہت ساتھ دیا میرے ساتھ سڑکوں پہ آئے پریس کانفرنس کی اس سلسلہ میں علاقہ سے چندہ مہم شروع کیا گیا اور یہ چندہ بڑھتے بڑھتے لاکھوں تک پہنچ گیا ان میں کچھ ایسے سیاسی رہنما بھی ہیں جنہوں نے ہمیں خطیر رقم دی۔
25 لاکھ تاوان کی ادائیگی کے بعد میرا بیٹا صحیح سلامت اپنے گھر واپس آگیا ہے جس پر میں اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔