محمد انس
بٹ خیلہ کے کیٹیگری اے ہسپتال میں بنیادی سہولیات کی کمی کے باعث مریض اور عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ہسپتال میں ایمرجنسی، آپریشن تھیٹر، آئی سی یو اور دیگر اہم سہولیات ہونے کے دعوے کئے جاتے ہیں، لیکن عملی طور پر مریضوں کو وہ سہولیات میسر نہیں ہوتیں جن کے لیے یہ کیٹیگری اے ہسپتال بنایا گیا تھا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ہسپتال کی بنیادی طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب مریضوں کو علاج کے لیے دوسرے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
ہسپتال کے 118 سینکشن شدہ پوسٹس میں سے 73 خالی ہونے کے باعث عملے کی کمی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق ہسپتال انتظامیہ نے کئی بار نئی بھرتیوں کی درخواستیں دی ہیں، لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر یہ پوسٹس خالی پڑی رہیں۔ بعض اہلکاروں کا کہنا ہے کہ سرکاری عملہ کئی بار تبادلے اور دیگر انتظامی مسائل کے باعث تعینات نہیں ہو پایا، جس سے مریضوں کو ایمرجنسی اور دیگر شعبوں میں فوری علاج کی سہولت میسر نہیں ہے۔
مریضوں کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں معمولی سے سنجیدہ کیس بھی فوراً سوات یا پشاور ریفر کر دیے جاتے ہیں، جس سے نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ مریضوں کی حالت بھی بگڑ سکتی ہے۔ ایک شہری، نواز خان، نے کہا کہ "اگر ہسپتال کیٹیگری اے ہے تو اسے اتنی بنیادی سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں کہ مریضوں کو باہر کے ہسپتالوں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ ریفر کرنے کا یہ نظام انتہائی پریشان کن اور غیر منصفانہ ہے۔"
بٹ خیلہ کے رہائشی ناصر خان نے ٹی این این کو بتایا کہ "رات کے اوقات میں ہسپتال میں عملے کی کمی کے باعث مریضوں کو مناسب علاج نہیں مل پاتا اور کئی اوقات میں انہیں شدید حالت میں بھی باہر کے ہسپتالوں میں بھیجنا پڑتا ہے۔ ایک رات میں بذات خود ایمرجنسی گیا تھا وہاں ایک ڈاکٹر اور ایک خاتون شاید خالا تھی خدمات دے رہے تھے۔ ہمیں گردوں کا مسلئہ تھا اور وہاں کوئی متعلقہ ڈاکٹر نہیں تھا تو اسلئے موجود ڈاکٹر نے کہا کہ اگر زیادہ تکلیف ہوں تو سوات ہسپتال جا سکتے ہوں۔"
ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کی غیر موجودگی خواتین مریضوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے، خاص طور پر ایمرجنسی میں جب فوری معائنہ اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ناصر خان نے مزید کہا کہ "کئی خواتین مریض اس وجہ سے علاج سے محروم رہ جاتی ہیں یا انہیں مرد ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے، جو کئی بار مریض اور ان کے اہل خانہ کے لیے باعث شرمندگی اور پریشانی بنتا ہے۔"
حمزہ خان، جنرل سیکرٹری قومی وطن پارٹی، بٹ خیلہ نے کہا کہ "ہسپتال کی سرکاری ادویات باہر مارکیٹوں میں فروخت ہو رہی ہیں، ہسپتال کے بیڈز اور چارپائیاں ناقابل استعمال ہیں، لفٹ اور دیگر بنیادی سہولیات ناکارہ ہیں، اور اس کی وجہ سے مریض شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ ہم نے کئی بار کوشش بھی کی ہے کہ سسٹم ٹھیک ہو جائے، ایم ایس ہماری بات ہی نہیں سنتا۔ اگر ہسپتال واقعی کیٹیگری اے ہے تو اسے عملی طور پر فعال بنایا جائے اور عوام کے لیے معیاری سہولیات فراہم کی جائیں۔"
لفٹ کی ناقص حالت ہسپتال میں مریضوں اور عملے کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے، کیونکہ مریضوں اور سامان کو اوپر نیچے منتقل کرنا اکثر ممکن نہیں ہوتا۔ بٹ خیلہ کے رہائشی سلمان نے کہا کہ "ہسپتال میں لفٹ پہلے دن سے خراب ہے اور مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو بستر یا وہیل چیئر پر ہیں۔ یہ کیٹیگری اے ہسپتال ہونے کے دعوے کے بالکل برعکس ہے۔"
خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق ہسپتالوں کو سہولیات اور خدمات کی بنیاد پر مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ ہر علاقے میں آبادی کے مطابق مناسب صحت کی سہولیات میسر ہوں۔ کیٹیگری اے ہسپتال بڑے اور مکمل سہولیات والے ہسپتال ہوتے ہیں جہاں ماہر ڈاکٹرز، جدید آلات، ایمرجنسی سروسز، آئی سی یو، آپریشن تھیٹر اور مکمل لیبارٹری سہولیات موجود ہوتی ہیں اور مریضوں کو فوری اور معیاری علاج فراہم کیا جا سکتا ہے۔
کیٹیگری بی ہسپتال درمیانے درجے کے ہسپتال ہوتے ہیں جہاں بنیادی ماہرین، ایمرجنسی، عام سرجری اور ضروری ٹیسٹ کی سہولت میسر ہوتی ہے، لیکن جدید آلات اور آئی سی یو کی سہولت ہمیشہ دستیاب نہیں ہوتی۔ کیٹیگری سی ہسپتال چھوٹے ہسپتال یا رورل ہیلتھ سینٹرز ہوتے ہیں جہاں بنیادی علاج، زچہ و بچہ کی سہولت، ابتدائی ایمرجنسی اور عام ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، جبکہ محدود ماہرین دستیاب ہوتے ہیں۔
آخر میں کیٹیگری ڈی ہسپتال سب سے بنیادی سطح کے مراکز صحت ہوتے ہیں جہاں صرف ابتدائی طبی امداد، معمولی بیماریوں کا علاج اور ریفرل سروس فراہم کی جاتی ہے۔ یہ کیٹیگریز اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بنائی گئی ہیں کہ ہر علاقے میں عوام کو ان کی ضروریات کے مطابق صحت کی معیاری سہولیات میسر ہوں۔
سابق وزیر اعلیٰ محمود خان نے نومبر 2022 میں بٹ خیلہ ہسپتال کا افتتاح کیا اور اسے کیٹیگری اے کا درجہ دیا تھا، جس کا مقصد عوام کو اعلیٰ معیار کی طبی سہولیات فراہم کرنا تھا۔ افتتاح کے وقت عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ مریضوں کو دیگر شہروں جیسے پشاور، سوات یا مردان ریفر نہیں کیا جائے گا اور ہسپتال میں جدید آلات، ماہر ڈاکٹرز اور ایمرجنسی خدمات دستیاب ہوں گی۔ تاہم، عوام کا کہنا ہے کہ عملی طور پر یہ وعدے پورے نہیں ہو پائے۔
ذرائع نے بتایا کہ ہسپتال میں کئی اہم ماہر ڈاکٹروں اور اسٹاف کے عہدے خالی پڑے ہیں، جن میں چائلڈ سپیشلسٹ، کارڈیالوجسٹ، نیوروسرجن، آئی سی یو سپیشلسٹ، گائناکالوجسٹ اور اینستھیزیا سپیشلسٹ شامل ہیں۔ ان خالی پوسٹس کی وجہ سے مریضوں کو ایمرجنسی اور دیگر شعبوں میں مناسب علاج میسر نہیں اور اکثر انہیں باہر کے ہسپتالوں میں ریفر کیا جاتا ہے۔
ہسپتال انتظامیہ کا موقف ہے کہ ایمرجنسی میں تین ڈاکٹرز، چھ نرسیں اور مکمل پیرامیڈیکل سٹاف ہمیشہ ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں اور ہسپتال میں موجود تمام مشینری اور سہولیات فعال ہیں تاکہ ہر مریض کو بروقت علاج فراہم کیا جا سکے۔
انتظامیہ کے مطابق بعض اوقات مریضوں کی بڑی تعداد یا ایمرجنسی کی پیچیدگی کے باعث کچھ تاخیر ہو سکتی ہے، لیکن یہ عمومی صورتحال نہیں ہے۔ ہسپتال انتظامیہ نے عوام کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بیڈز، لفٹ اور دیگر آلات کی مرمت اور بحالی کے لیے اقدامات جاری ہیں اور تمام خالی پوسٹس پر عملے کی تعیناتی کی کوششیں بھی جاری ہیں تاکہ ہسپتال واقعی کیٹیگری اے کے معیار کے مطابق فعال ہو۔
ہسپتال کے ترجمان نے کہا کہ "ہم عوام کے تحفظات کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور ایمرجنسی وارڈ میں عملے کی کمی، مشینری کی خرابی اور دیگر مسائل کے فوری حل کے لیے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ہم نے متعدد پوسٹس پر بھرتیوں کا عمل شروع کر دیا ہے اور بیڈز، لفٹ اور دیگر آلات کی مرمت کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جا رہا ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ بٹ خیلہ ہسپتال واقعی کیٹیگری اے کے معیار پر پورا اترے اور ہر مریض کو بروقت اور معیاری علاج میسر ہو۔"
تاہم مریض اور علاقے کے رہائشی انتظامیہ کے دعووں کے بارے میں کافی شکوک ظاہر کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ عملی طور پر ایمرجنسی میں عملے کی کمی اور سہولیات کی ناکامی آج بھی موجود ہے۔
کئی مریضوں نے بتایا کہ وہ رات کے وقت ہسپتال پہنچے تو صرف ایک یا دو ڈاکٹر اور محدود نرسیں موجود تھیں، اور بیڈز و مشینری اکثر خراب حالت میں پائی جاتی ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کے بیانات اور حقیقت کے درمیان واضح فرق ہے اور اگر فوری طور پر اقدامات نہ کئے گئے تو عوام کا اعتماد ہسپتال پر مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔