طورخم بارڈر کی 36 روزہ بندش کے باعث لنڈی کوتل اور گردونواح کی مقامی معیشت شدید متاثر ہو گئی ہے، تجارتی سرگرمیاں تقریباً مفلوج ہو چکی ہیں اور ہزاروں افراد کے روزگار پر براہِ راست اثر پڑ رہا ہے۔ اسی صورتحال کے خلاف لنڈی کوتل بازار باچا خان چوک میں سیاسی قائدین، ٹرانسپورٹرز، کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس، تاجروں، مزدوروں اور مقامی عوام نے ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور پاک افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ طورخم سرحد کو فوری طور پر کھولا جائے تاکہ تجارت اور مسافروں کی آمدورفت بحال ہوسکے۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ بارڈر کی طویل بندش نے دونوں ممالک کے تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور عام شہریوں کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔
مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشیدگی کم کرنے اور معاملے کے مستقل حل کے لیے دونوں ممالک کو مذاکرات کا راستہ اپنانا ہوگا۔ انہوں نے افغانستان میں طورخم بارڈر پر پھنسے پاکستانی ڈرائیوروں اور شہریوں کو جذبہ خیرسگالی کے تحت واپس پاکستان آنے کی اجازت دینے کا مطالبہ بھی کیا۔
سیاسی قائدین اور مقامی عمائدین نے خبردار کیا کہ اگر بارڈر کو فوری طور پر نہ کھولا گیا تو احتجاجی دھرنا غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔ ان کے مطابق روزانہ کی بندش نے مقامی تجارت، لیبر مارکیٹ اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔
احتجاج میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مفتی محمد اعجاز شینواری، تحصیل چیئرمین شاہ خالد شینواری، طورخم کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین معراج الدین شینواری، صدر مجیب شینواری، بنارس شینواری، مولانا عاقب درویش، زر شاہ شینواری سمیت مختلف سیاسی جماعتوں اور تاجر تنظیموں کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔