معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و تعلقاتِ عامہ شفیع اللّٰہ جان نے دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ کو ’’حقائق کے منافی، غیر مصدقہ کہانیوں اور سیاسی پراپیگنڈے‘‘ پر مبنی قراردیتے ہوئے اسے صحافتی اصولوں کے خلاف قرار دیا ہے۔
شفیع اللّٰہ جان نے کہا کہ رپورٹ میں عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی طرز حکمرانی کو ’’جانبدارانہ طور پر مسخ‘‘ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق تحریر میں سنسنی خیز الزامات، گمنام ذرائع، گھریلو عملے کی افواہوں اور سیاسی مخالفین کے بیانات کو حقیقت بنا کر شامل کیا گیا، جو آزاد صحافت کے بنیادی تقاضوں کے برعکس ہے۔
انہوں نے گھریلو معاملات سے متعلق افواہوں کو تجزیہ بنا کر پیش کرنے پر شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی کردار کشی کے لیے اس نوعیت کی داستانیں تراشنا ’’غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ صحافت‘‘ ہے۔ شفیع جان کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی کی حکومتی معاملات میں مداخلت کا دعویٰ ’’بے بنیاد‘‘ ہے، جبکہ وفاقی کابینہ، اقتصادی رابطہ کمیٹی، قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ اس بیانیے کی واضح تردید کرتا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ کسی سرکاری افسر یا ادارے نے کبھی ایسی مداخلت کی کوئی شکایت نہیں کی، مگر سیاسی مخالفین مسلسل گمراہ کن دعووں کے ذریعے انتشار پھیلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مسلم لیگ ن عمران خان سے خوفزدہ ہے، اسی لیے آئے روز نئے ڈرامے رچائے جا رہے ہیں۔‘‘
شفیع اللّٰہ جان کا مزید کہنا تھا کہ ’’یہ مینڈیٹ چور ٹولہ عوام میں مسترد ہو چکا ہے، اس لیے اب صحافت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے، مگر یہ عمران خان کو عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکتے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایک طرف ’’بے گناہ بشریٰ بی بی کو قید میں رکھا گیا ہے اور دوسری طرف کردار کشی کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔‘‘
شفیع جان نے اعلان کیا کہ دی اکانومسٹ کے اس مضمون کے خلاف عالمی فورمز سے رجوع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان وہ واحد لیڈر ہیں جنہوں نے ’’مورثی سیاست کو پاکستان میں دفن کیا‘‘ اور کوئی رپورٹ یا پروپیگنڈا ان کی عوامی مقبولیت کم نہیں کر سکتا۔
آخر میں انہوں نے رائٹرز پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس آرٹیکل کے ذریعے صحافت کو ذاتی مفاد اور معاش کے لیے استعمال کیا گیا ہے، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔‘‘