ضلع خیبر میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور 100 رکنی قبائلی مذاکراتی جرگے کے درمیان تیراہ میدان کے دور افتادہ علاقے میں اہم ملاقات ہوئی، جس میں طالبان نے جرگے کے سامنے دو بنیادی مطالبات پیش کیے۔
ذرائع کے مطابق جرگہ پیر کی صبح تیراہ میدان کے باغ مرکز پہنچا، جہاں تیراہ کے سیاسی و قومی عمائدین سے مشاورت کے بعد طالبان قیادت سے مذاکرات کیے گئے۔
مذاکراتی جرگے میں سیاسی اتحاد باڑہ کے قائدین، تینوں تحصیلوں باڑہ، جمرود اور لنڈی کوتل کے قومی مشران، علاقائی نمائندے اور سابق اراکین صوبائی اسمبلی شریک تھے۔ باڑہ سیاسی اتحاد کی نمائندگی ہاشم خان آفریدی، شاہ فیصل، خان ولی آفریدی، حاجی شیرین اور عطااللہ اصغر خان نے کی، جبکہ جمرود و لنڈی کوتل سے ملک صلاح الدین، ملک عبدالرازق، مفتی اعجاز شفیق شیر اور ملک اسرار شامل ہوئے۔ تیراہ میدان کی نمائندگی مولانا حضرت خان، مولانا عزت اللہ ہمخیال، ظاہر شاہ آفریدی، کمال الدین اور ملک آدم خان نے کی۔
طالبان کی جانب سے اولسوال غازی عبداللہ، ابوذر آفریدی اور مختلف عسکری کمانڈرز نے مذاکرات میں شرکت کی۔ تقریباً ایک گھنٹے جاری رہنے والے مذاکرات میں تحریک طالبان نے دو اہم مطالبات پیش کیے۔
پہلا مطالبہ یہ تھا کہ ٹی ٹی پی کئی دہائیوں سے پاکستان میں شرعی نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، جس میں ان کے ہزاروں کارکنان نے جانی و مالی قربانیاں دیں۔ طالبان کے مطابق انہی قربانیوں کے نتیجے میں افغانستان میں آج ایک شرعی اسلامی حکومت قائم ہے جس میں پاکستانی مجاہدین کا کردار شامل ہے۔
دوسرا مطالبہ یہ پیش کیا گیا کہ فاٹا انضمام سے قبل جس طرح تحریک طالبان کی تنظیمیں قبائلی علاقوں میں آزادانہ طور پر کام کرتی تھیں، انہیں دوبارہ اسی طرز پر اپنے حال پر چھوڑا جائے۔ طالبان قیادت نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ پورے ملک میں اسلامی و شرعی نظام نافذ کیا جائے۔
مذاکرات کے اختتام پر جرگہ اراکین نے فیصلہ کیا کہ طالبان کے پیش کردہ مطالبات حکومت پاکستان کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔
ادھر ذرائع کے مطابق مذاکراتی عمل کے ساتھ جاری فائر بندی کی مدت آج رات ختم ہو جائے گی۔ مذاکرات مکمل کرنے کے بعد جرگہ پچاس رکنی وفد کے ہمراہ پشاور واپس پہنچ گیا۔