محمد عامر
قبائلی ضلع اورکزئی میں معذور افراد کو آج کے دور میں بھی وہ بنیادی سہولیات میسر نہیں جن کا وعدہ ریاست نے آئین اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت کیا تھا۔ نہ سپیشل ایجوکیشن سینٹر موجود ہے، نہ سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے لیے مختص کوٹہ پر عمل درآمد ہوتا ہے، اور نہ ہی ان کے فلاحی ادارے یا معاونتی پروگرام کسی عملی شکل میں نظر آتے ہیں۔
"معذور افراد یونین اورکزئی" کے صدر نیک بادشاہ کا کہنا ہے کہ کئی بار ڈپٹی کمشنر، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور دیگر اداروں سے رابطہ کیا گیا مگر کسی نے سنوائی نہیں کی۔ ان کے مطابق معذور افراد کو نہ تعلیم کا حق دیا جا رہا ہے اور نہ روزگار میں کوئی حصہ رکھا جا رہا ہے۔
تعلیم سے محرومی
ضلع اورکزئی میں کوئی مخصوص سپیشل ایجوکیشن سکول موجود نہیں۔ جہاں جسمانی، ذہنی یا بصری معذوری کے شکار بچوں کو ان کی ضروریات کے مطابق تعلیم دی جا سکے۔ عام سکولوں میں نہ سہولیات ہیں اور نہ اساتذہ کو سپیشل ایجوکیشن کی تربیت دی گئی ہے، جس کی وجہ سے زیادہ تر بچے گھروں تک محدود ہیں۔
سرکاری نوکریوں میں کوٹہ نظرانداز
پاکستان میں قانوناً معذور افراد کے لیے سرکاری ملازمتوں میں کم از کم 2 فیصد کوٹہ مختص ہے، مگر اورکزئی میں اس قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ مقامی افراد کے مطابق تعلیم یافتہ معذور نوجوان جب نوکری کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے، اور کوٹہ پر عمل درآمد کے بجائے لاعلمی یا مختلف بہانے تراشے جاتے ہیں۔
مالی و فلاحی امداد کی کمی
مقامی معذور لوگوں کا کہنا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، احساس پروگرام یا کسی بھی قسم کی مالی امداد سے معذور افراد کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر افراد رجسٹریشن سے محروم رہ جاتے ہیں اور جنہیں کارڈ مل بھی جائے تو وہ کئی مہینوں تک رقم کے انتظار میں رہتے ہیں۔ ویل چیئرز، واکر یا دیگر معاون آلات بھی ضلعی سطح پر دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے اکثر افراد خیراتی اداروں یا ذاتی کوششوں پر انحصار کرتے ہیں۔
خواتین معذور افراد کی دوہری محرومی
ماہرین اور مقامی نمائندوں کے مطابق خواتین معذور افراد کو دوہری محرومی کا سامنا ہے۔ نہ ان کے لیے کوئی مخصوص پروگرام ہیں اور نہ ہی معاشرہ انہیں قبول کرتا ہے۔ تعلیم، صحت اور تحفظ تک رسائی ان کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔
مطالبات اور تجاویز
مقامی تنظیموں اور رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ضلع اورکزئی میں فوری طور پر سپیشل ایجوکیشن سینٹر قائم کیا جائے، سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے کوٹہ پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، باقاعدہ رجسٹریشن اور مالی معاونت کی مہم چلائی جائے، اور خواتین معذور افراد کے لیے علیحدہ پالیسی ترتیب دی جائے۔
حکومت اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کا موقف
اس حوالے سے ٹی این این نے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اورکزئی سے رابطہ کیا۔ ایک ترجمان نے بتایا کہ وہ معذور افراد کے مسائل سے آگاہ ہیں اور ان کی رجسٹریشن کے لیے مہم شروع کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق فنڈز اور ادارہ جاتی ڈھانچے کی کمی کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں لیکن یہ مسئلہ صوبائی سطح پر اٹھایا جا رہا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ویل چیئرز اور دیگر معاون آلات کی فراہمی کے لیے فہرست تیار کی جا رہی ہے جبکہ مستقبل میں سپیشل ایجوکیشن سینٹر کے قیام کے لیے بھی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔