محمد سلمان
خیبر پختونخوا حکومت کے لیبر ڈیپارٹمنٹ نے صوبہ بھر میں فیکٹریوں، دکانوں اور نجی ہسپتال سمیت دیگر اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کی ماہانہ تنخوا ہ 36 ہزار روپے سے بڑھا کر 40 ہزار روپے مقرر کرنے کا باقاعدہ اعلامیہ جاری کر دیا ہے، اس حکم نامے پر عمل درآمد یکم جولائی 2025 سے ہوگا۔
صوبائی حکومت کے اس اقدام کے بعد یہاں ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان احکامات پر عمل درآمد کیسے ہوگا کیونکہ 2 فیصد ادارے بھی اس پر عمل درآمد نہیں کر پا رہے۔
روزی خان پشاور کے ایک نجی سکول میں استاد ہیں، جو گزشتہ چار سالوں سے اس سکول میں پڑھا رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کی ماہانہ تنخواہ ابھی حالیہ دنوں میں بمشکل 24 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ ہمیں بھی پتہ ہے کہ ہمیں اپنا حق نہیں دیا جا رہا ہے لیکن مجبوری کے تحت اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ بے روزگاری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اگر ہم اس تنخواہ پر کام نہیں کریں گے تو ہماری جگہ کوئی اور آ کر اس تنخواہ پر کام کرنے کو تیار ہو جائے گا حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں ایک ایسا مربوط نظام بنائیں جن سے حکومتی احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔
احمد عدنان پشاور کے ایک بہت ہی مشہور و معروف سکول میں ڈرائیور ہیں، شہر بھر میں اس سکول کی کل 14 برانچز ہیں ان کی ڈیوٹی اس قدر سخت ہے کہ وہ روزانہ صبح پانچ بجے شہر کے مختلف علاقوں سے بچوں کو پک کر کے اسکول لاتے ہیں اور پھر واپسی پر بھی گھر چھوڑنا پڑتا ہے لیکن اس کے بدلے ان کو ماہانہ 24 ہزار اجرت دی جا رہی ہے۔ عدنان کے مطابق اگر حکومت درجنوں اعلامیہ بھی جاری کرے جب تک ان پر عمل درامد نہیں ہوگا تو ایسے اعلامیوں کا کیا فائدہ حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو اس پر عمل درآمد کر کے دکھائے۔
پشاور صدر کینٹ میں ایک بڑے تجارتی سینٹر کے باہر سیکیورٹی گارڈ علاؤ الدین کہتے ہیں کہ انہیں پچھلے چار سالوں سے 20 ہزار ماہانہ اجرت دی جا رہی ہے، صوبائی حکومت کا یہ اقدام کہ مزدور کی ماہانہ اجرت 36 ہزار سے بڑھا کر 40 ہزار کر دی گئی ہے، ایک احسن اقدام ہے اصل مرحلہ اس کے بعد شروع ہوتا ہے کہ کیسے اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
کوہاٹ روڈ سمال انڈسٹریز میں ایک مزدور تاج ماما نے بتایا کہ 40 ہزار تو دور کی بات ہمیں تو 36 ہزار تنخواہ بھی نہیں مل رہی تھی اگر اس کے خلاف متعلقہ محکمہ میں کوئی شکایت کرتے ہیں تو الٹا وہ شکایت ہمارے گلے پڑ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو مل رہا ہے اس پر ہی گزارا کر رہے ہیں۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ کا موقف۔
ڈپٹی ڈائریکٹر لیبر عرفان اللہ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس اہم مسئلے پر عمل درآمد مشکل ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، ہمارے پاس اتنی فورس نہیں ہے کہ ہم ہر جگہ جا کر ان پر زبردستی تنخواہ بڑھانے کا پریشر ڈالیں۔ ہمارے پاس اختیار صرف انسپیکشن اور پراسیکیوشن کے ہے۔ ہم جس کارخانہ یا فیکٹری میں انسپیکشن کرنے چلے جاتے ہیں اور وہاں پر انسپیکشن کے دوران جس مزدور سے ان کی تنخواہ کا پوچھتے ہیں تو وہ وہی سرکار والی تنخواہ بتاتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے وہ اپنی اصل اجرت نہیں بتاتے کہ کہیں نکال نہ دیے جائیں۔
عرفان اللہ کے مطابق پھر ہم نے دوسرا قانون پیش کیا کہ مزدوروں کو اجرت کیش رقم کی بجائے بینک کے ذریعے دی جائے کہ ہمیں پتہ چلے کہ کون کتنی اجرت لے رہا ہے۔ میں یہاں پر آپ کو بتاتا چلوں کہ ہر کارخانے اور فیکٹری نے اپنے لیگل ایڈوائزر رکھے ہیں۔ وہ ان کو مشورے دیتے ہیں کہ آپ بینک کے ذریعے مزدوروں کو ان کی اجرت دے اور جب بینک کے ذریعے مزدور کو اجرت مل جاتی ہے، تو انہی اجرت میں سے مالکان ہر مزدور سے 10 یا 15 ہزار روپے واپس لے لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اگر کوئی مزدور اپنی تنخواہ سے متعلق اپنے ادارے کے خلاف ہم سے شکایت کر لیتا ہے تو ہم اس کا مقدمہ لیبر کورٹ میں لے جاتے ہیں پھر لیبر کورٹ میں یہ کیسز سالوں تک چلتے رہتے ہیں۔ میرے پاس ابھی بھی ایسے متعدد کیسز موجود ہیں جن کا 2021 سے فیصلہ نہیں ہوا بہرحال حکومت نے اپنی تگ و دو کرنی ہے اور کوشش کر رہے ہیں کہ کسی حد تک مزدور کو اپنا حق ملے۔