90 کی دہائی کا سنہری دور
90 کی دہائی میں بچوں کے لیے ٹی وی پر خصوصی پروگراموں کی بھرمار ہوتی تھی۔ صبح کا آغاز “صبح سویرے” جیسے پروگراموں سے ہوتا جن میں کارٹون، نغمے اور دلچسپ کہانیاں شامل ہوتیں۔ اسکول سے واپسی پر شام کے اوقات میں بھی تعلیمی شوز اور ڈرامے نشر کیے جاتے، جو صرف تفریح تک محدود نہیں ہوتے تھے بلکہ کھیل کھیل میں نئی باتیں سکھاتے اور بچوں کی شخصیت و نفسیات پر مثبت اثر ڈالتے “عینک والا جن” اور انکل سرگم جیسے کردار بچوں کی تربیت اور تعلیم کے لیے مثالی سمجھے جاتے تھے۔
والدین کی یادیں
پشاور کی رہائشی گھریلو خاتون ماریہ سلطان بتاتی ہیں کہ اُن کا بچپن بہت رنگین تھا کیونکہ شام کے وقت نشر ہونے والے پروگرام صرف تفریح فراہم نہیں کرتے تھے بلکہ معلومات میں بھی اضافہ کرتے تھے۔ اُن کا پسندیدہ شو “انسائیکلو پیڈیا” تھا۔ اُن کے مطابق آج بے شمار چینلز موجود ہیں لیکن بچوں کے لیے کوئی معیاری پروگرام دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ بچے موبائل فون اور دیگر اسکرینز کی طرف زیادہ راغب ہو گئے ہیں، اور یہ رجحان ان کی صحت اور نفسیات دونوں پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔
اساتذہ کی نظر میں موجودہ مسائل
پشاور کے ایک سرکاری اسکول کی استانی زکیہ کے مطابق شہر میں بچوں کے لیے تفریحی سرگرمیوں کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ پارکس اور کھیل کے میدان نہ ہونے کے باعث بچے گھروں تک محدود ہو گئے ہیں اور موبائل فون اُن کی واحد تفریح بن چکا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو صحت مند سرگرمیوں میں مشغول رکھیں جبکہ حکومت کو پارکس اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے بہتر مواقع فراہم کرنے چاہییں۔
نجی چینلز کی بے اعتنائی اور پی ٹی وی کی پہچان
نجی چینلز بڑے بجٹ کے ڈرامے اور پروگرام تو ضرور تیار کرتے ہیں لیکن بچوں کے لیے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ یوں لگتا ہے جیسے انہیں بچوں سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ اس کے برعکس ماضی میں پاکستان ٹیلی وژن نے بچوں کے لیے بے شمار یادگار پروگرام پیش کیے جنہیں آج بھی لوگ محبت سے یاد کرتے ہیں۔
فنڈز کی کمی پر پی ٹی وی کا مؤقف
پی ٹی وی پشاور سینٹر کے پروگرام منیجر جہانزیب یوسفزئی کے مطابق فنڈز کی کمی بچوں کے پروگرام نہ بننے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں خصوصی ڈرامہ “ڈاکو” تیار کیا جا رہا ہے اور مستقبل میں اردو اور پشتو دونوں زبانوں میں بچوں کے لیے پروگرام نشر کرنے کا ارادہ ہے، کیونکہ نئی نسل کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
نئی نسل کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت
بچوں کے لیے معیاری تفریحی اور تعلیمی پروگراموں کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حکومت اور نجی چینلز کو چاہیے کہ اس خلا کو پُر کریں تاکہ نئی نسل صرف موبائل اور سوشل میڈیا تک محدود نہ رہ جائے بلکہ انہیں وہی تعمیری اور رنگین ماحول میسر آئے جو ماضی میں تھا۔