نبی جان اورکزئی
مردان سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراء پروا جان (فرضی نام) کو اپنے گرو نے اس وقت ڈیرے چھوڑنے کو کہا جب اس میں ایڈز جیسی موذی مرض کی تشخیص ہوئی۔ پروا جان کا کہنا ہے کہ وہ اس کی زندگی کا سخت ترین دن تھا، جب اس کو ڈاکٹر نے پہلی دفعہ کہا کہ آپ کو ایڈز کی بیماری لاحق ہے، یہ سن کر گویا میری پاؤں تلے زمین نکل گئی اور وہ ادھر ہی رونے لگی اور یہ سوچنی لگی کہ آگے میرے لئے زندگی اور کتنی مشکل ہو جائے گی۔ اس وقت میرے پاس رونے اور بے بسی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
پروا نے بتایا کہ زندگی پہلی ہی کسی عذاب سے کم نہ تھی اوپر سے اس بیماری نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ میری کمیونٹی نے اس کے بعد میرے ساتھ تعلقات ترک کرنا شروع کردیئےاور میں اکیلی ہوتی جاری رہی تھی لوگوں نے مجھے پروگرامات میں لے جانے سے کترانے لگے، جس سے میرے مالی مشکلات بھی بڑھنے لگے۔
صوبائی انٹیگریڈٹ ایچ آئی وی ایڈز ، ہیپاٹائیٹس اینڈ تھیلیسمیا کنٹرول پروگرام سے ملنے والے دستاویزات کے مطابق اس موذی مرض کے تشخص اور علاج کیلئے صوبے بھر میں 13 میڈیکل سنٹرز قائم کئے گئے ہیں۔ جس میں رواں سال جون تک کل 9 ہزار 2 سو 9 ایچ ائی وی ایڈز کی مریض رجسٹرڈ ہیں۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائیٹس اور بلیو وینز کی جانب سے کی جانے والی حالیہ تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد پہلے ہی معاشرتی تعصبات، اقتصادی مشکلات اور قانونی رکاوٹوں کا شکار ہیں ، تاہم ایچ آئی وی ایڈزکے ساتھ زندگی گزارنے والے ٹرانس جینڈر افراد کیلئے یہ مشکلات کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں بلو وینز اور نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی جانب سے مشترکہ طور پر کی جانے والی تحقیق میں ان افراد کی زندگی کے تلخ حقائق کو اجاگر کیا ہے۔ صوبے میں ٹرانس جینڈر افراد کو ٹھیک طرح صحت کا سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ دیگر بیماریوں کے علاوہ ایچ آئی وی کے ساتھ جینے والوں کی جدوجہد اور فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد کو صحت کی سہولیات تک رسائی میں بدترین امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں اکثر مقامات پر علاج کی سہولت دینے سے انکار کیا جاتا ہے اور ہسپتالوں میں عملہ ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتا ہے اور انہیں دوسرے مریضوں کے مقابلے میں زیادہ انتظار کرایا جاتا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے یہ افراد علاج سے دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں بیماری کی شدت میں اضافہ اورصحت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
انٹیگریڈٹ ایچ آئی وی ایڈز ہیپاٹائیٹس اینڈ تھیلیسمیا کنٹرول پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر طارق حیات کا اس حوالے سے کہناہے کہ صوبے سمیت پشاور میں ایچ آئی وی ایڈز کیسز میں اضافہ نہیں بلکہ اس کے سکرینگ میں اضافہ کیاگیاہے اور اس عمل کو مزید تیز کیاہے۔ جس کی وجہ سے اس کے رپورٹ ہونے میں اضافہ ہواہے وہ کہتے ہیں کہ صوبے میں ہونے والے حالیہ سروے میں 30 ہزار سے زائد ایچ آئی وی ایڈز کے کیسز کا انکشاف ہواتھا، لیکن اب تک ہمارے پاس 9 ہزار تک ایچ آئی وی مریض رجسٹرڈ ہے اوران کا اعلاج جاری ہے۔
انٹیگریڈٹ ایچ آئی وی ایڈز ہیپاٹائیٹس اینڈ تھیلیسمیا کنٹرول پروگرام سے ملنے والے دستاویز کے مطابق ایک سنٹر حیات آباد میڈیکل کمپلکس پشاور میں ہے۔ جس میں کل 2 ہزار 7 سو 23 مریض ایڈمٹ ہیں جس 1 ہزار 9 سو 66 مرد، 555 خواتین، 49 ٹرانس جینڈرز، پچانویں بچے اور 58 بچیاں رجسٹرڈ ہیں۔ دستاویز میں دوسرے نمبر پر لیڈی ریڈنگ ہستپال پشاورہے، جس میں 2 ہزار 82 ایچ آئی وی ایڈز کے مریض رجسٹرڈ ہیں۔ جس میں ایک ہزار 50 مرد، 348 خواتین، 101 خواجہ سرا، 57 بچے اور 45 بچیاں شامل ہیں۔
تیسری نمبر پر خلیفہ گل نواز ہسپتال بنوں ہے، جس میں کل 1 ہزار 97 مریض رجسٹرڈ ہے جس میں 728 مرد، 291 خواتین، چھ خواجہ سرا، 40 بچے اور 22 بچیاں رجسٹرڈ ہیں،دستاویز کے مطابق ڈی ایچ کیو ہسپتال کوہاٹ میں 678 ایچ آئی وی ایڈز کے مریض رجسٹرڈ ہیں۔ جس میں 4 سو 74 مرد، ایک سو 81 خواتین، 2 خواجہ سرا، 10 بچے اور 11 بچیاں رجسٹرڈ ہے۔ ڈی ایچ کیو ہسپتال بٹخیلہ میں کل 4 سو 71 مریض رجسٹرڈ ہے جس میں 321 مرد، 132 خواتین، تین خواجہ سرا، 7 بچے اور 8 بچیاں زیر اعلاج ہیں۔
ڈیٹا کے مطابق ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد میں قائم سنٹر میں کل 466 مریض زیر اعلاج ہے، اس ہسپتال میں 304 مرد 135 فیمل، 5 خواجہ سرا، 14 بچے اور 8 بچیاں کی علاج جاری ہے۔ اسی طرح مفتی محمود میموریل ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں کل 448 مریض رجسٹرڈ ہے۔ جس میں 315 مرد، 130 خواتین، 10 خواجہ سرا، 8 بچے اور 10 بچیاں زیر اعلاج ہیں۔ ایک سنٹر سیدو ہسپتال سوات میں قائم کیا گیا ہے، جس میں کل 385 ایچ آئی وی ایڈز کے مریض رجسٹرڈ ہیں۔ جس میں 236 مرد، 123 خواتین، 12 خواجہ سرا، 7 بچے اور 7 بچیوں کے علاج جاری ہیں۔
ڈی ایچ کیو مردان میں قائم سنٹر میں 337 مریض رجسٹرڈ ہیں اس میں 228 مرد، 85 خواتین، 8 خواجہ سرا، 6 بچے، اور 10 بچیاں رجسٹرڈ ہیں۔ باچا خان میڈیکل کمپلکس صوابی سنٹر میں 230 مریض رجسٹرڈ ہے۔ اس سنٹر میں 137 مرد، 49 خواتین، 1 خواجہ سرا، 4 بچے اور 3 بچی رجسٹرڈ ہیں۔
اسی طرح ڈی ایچ کیوخار باجوڑ میں قائم سنٹر میں 125 ایچ ائی وی ایڈز کے مریض رجسٹرڈ ہیں۔جس میں 74 مرد، 42 خواتین، 7 بچے اور 2 بچیوں کی اعلاج جاری ہے۔ ڈی ایچ کیو میران شاہ میں قائم سنٹر میں کل 22 افراد زیر علاج ہے۔ جس میں 70 مرد، 48 خواتین، 2 بچے اور 2 بچیاں شامل ہے۔ اسی طرح پاراچنار، اپر کرم میں قائم سنٹر میں سب سے کم مریض رجسٹرڈ ہے، جس کل تعداد 45 ہے اس میں 18 مرد، 25 خواتین، 1 بچہ اور 1 بچی زیر اعلاج ہے۔
ٹرانس جینڈر کمیونٹی رہنماء فرزانہ جان کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی ایڈزکے ساتھ جینے والے ٹرانس جینڈر افراد کو دوہری سزا ملتی ہے۔ ایک ان کی شناخت اور دوسری اس موذی مرض کی وجہ سے کئی مشلات کا سامنا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ جب تک معاشرہ اپنی سوچ اور رویے نہیں بدلتا اور حکومت عملی اقدامات نہیں کرتی، ہم صحت کے بنیادی حقوق سے محروم ہی رہیں گے۔
وہ کہتی ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ صحت کے عملے کی تربیت کو لازمی بنائے تاکہ وہ بغیر کسی تعصب کے ٹرانس جینڈر افراد کا علاج کر سکیں۔ آگاہی مہمات کے ذریعے ایچ آئی وی اور جنس کی شناخت سے متعلق غلط فہمیوں کا خاتمہ ضروری ہے تاکہ معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے۔
دستاویزات کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف سنٹرز میں دیگر صوبوں کے 831 افراد زیر اعلاج ہے، جس میں پنجاب سے 355، افغانستان سے 397 ، سندھ سے 55، بلوچستان سے 14 اور گلگت بلتستان سے 10 مریض زیر اعلاج ہیں۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائیٹس اور بلیو وینز کی جانب سے کی جانے والی حالیہ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سماجی سطح پر بھی یہ افراد تنہائی، بے دخلی اور تضحیک کا شکار ہوتے ہیں۔ ایچ آئی وی ایڈز کی تشخیص کے بعد بہت سے ٹرانس جینڈر افراد کو اپنی ہی کمیونٹی اورگرو کے نظام سے نکال دیا جاتا ہے۔ جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یہ اندرونی ردعمل ان کے ذہنی دباؤ کو مزیدبڑھاتا ہے، جس کے نتیجے میں ڈپریشن، بے چینی اور خودکشی کے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔
ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ حقوق) ایکٹ 2018کے باوجود بھی اس قانون کا مؤثر اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے ٹرانس جینڈر افراد مسلسل بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ عدالتی فیصلے، سماجی تعصبات اور پالیسی کی کمی نے ان کے لیے زندگی مزید مشکل بنا دی ہے، جس سے وہ مزید معاشرتی حاشیے پر چلے گئے ہیں۔
پرواجان کی عمر 30 سال ہے اور وہ پچھلے چار سالوں سے ایڈز سروائیور ہے، وہ کہتی ہے کہ میں نے ہمت نہیں ہاری اوراس موذی مرض سے لڑنے کا فیصلہ کرلیا جس کے بعد حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں قائم ایچ آئی وی ایڈز سنٹر میں اپنے آپ کو رجسٹرڈ کراکے اعلاج شروع کیا اور وہ اعلاج آج بھی جاری ہے۔ وہ کہتی ہے جہ میں روٹین سے ہسپتال جاتی ہوں اور چیک اپ کراتی ہوں۔ وہ کہتی ہے کہ چونکہ میرا اعلاج تو ہسپتال مفت جاری ہے لیکن اس بیمارے کے بعد میرےی مالی مشکلات میں کافی ضافہ ہوا ہے۔ پہلے گھر والوں کو بھی پیسے بھیجتی تیے اور اب بامشکل اپنا خرچہ پوری کرتی ہوں۔
صوبائی وزیر صحت احتشام علی کا کہناہے کہ صوبائی حکومت اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ایچ آئی وی کو کنٹرول کرنے کیلئے صوبائی حکومت صوبے میں سکرینگ سنٹرز کی تعداد کوبیس تک بڑھائینگے تاکہ زیادہ سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو سکے اور موذی مرض کا بروقت علاج کرسکے۔وہ کہتے ہیں کہ ایچ آئی وی پہلے ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور یہ ایک پوشیدہ بم کی طرح ہے، اس کی جتنی زیادہ سکرینگ ہوگی اتناہی زیادہ ہم معاشرے کومحفوظ بنائینگے۔وہ کہتے ہیں کہ ہم اس حوالے سکرینگ کے عمل کو آسان بنائینگے۔
فرزانہ جان نے بتایا کہ صحت کی سماجی حفاظت کی سکیموں میں ٹرانس جینڈرافراد کو شامل کیا جائے اور ایسے کمیونٹی سینٹرز قائم کئے جائیں جہاں وہ ذہنی اور جسمانی صحت کی سہولیات محفوظ ماحول میں حاصل کر سکیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خاموش تماشائی بننے کی بجائے عملی اقدامات کریں، تعصبات کو توڑیں، اور ٹرانس جینڈر افراد کو وہ عزت، حقوق اور مواقع فراہم کریں جن کے وہ برابر کے حقدار ہیں۔ ان کی آواز کو سننا اور ان کے مسائل کو حل کرنا اب ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
دستاویزات کے مطابق رواں سال جون تک اکٹھا کئے گئے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ خیبر پخونخوا کے بندوبستی اضلاع میں کل 7027 کیسز اور سابقہ قبائلی اضلاع سے اب تک 1371 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ دستاویز میں لکھا ہے کہ پشاور میں سب سے زیادہ ایچ آئی وی ایڈز کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس کی تعداد 1724، بنوں سے 939، سوات سے 437، مران سے 427، چارسدہ سے 391، لکی مروت سے 349، صوابی سے 335، لوئر دیر 321، نوشہرہ سے 279، کوہاٹ سے 257، مانسہرہ سے 229، ابٹ اباد سے 221، اپر دیر سے 156، کرک سے 153، ہنگو 137، بونیر سے 131، ملاکنڈ 125، شانگلا 103، ٹانک 101، ہری پور 86، بٹاگرام 61، چترال 36، کوہستان 15 اور تورغر سے 14 ایچ ائی وی ایڈز کے رپورٹ ہوئے ہیں۔
قبائلی اضلاع میں سب سے زیادہ کیسز نارتھ وزیرستان سے 354، خیبر سے 286، کرم سے 224، باجوڑ سے 218، ساؤتھ وزیرستان سے 140، ملاکنڈ سے 87 اور ضلع اورکزئی سے صرف 62 کیسز تاحال رجسٹر ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر طارق حیات نے مزید بتایا کہ پہلے اس بیماری کو سٹیگما تصور کیا جاتاتھا۔ اب لوگوں میں آگاہی آچکی ہے اور وقتاًفوقتاً لوگوں نے سکرینگ کروانا شروع کردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان افراد کو چاہیے کہ اپنا ٹسٹ کرائے جس کو شکوک وشبہات ہوکہ ان کو خون دینے کے بعد کسی مسئلے کا سامنا ہے، یا وہ کسی تیزدھار آلے سے زخمی ہوا ہوں اور اگر اس نے غیر محفوظ جنسی تعلقات قائم کئے ہو ان کا بروقت علاج شروع ہوسکے۔ ڈاکٹر طارق حیات کا کہناہے کہ ہمارے پاس ایچ آئی وی، ایم آئی ایس میں مختلف علاقوں سے خواجہ سراء بھی رجسٹرڈ ہے جس کا دیگر مریضوں کی طرح علاج جاری ہے۔