سید ابوبکر خان

 

خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں خاتون سونولوجسٹ کی عدم دستیابی کے باعث خواتین مریضوں کو سنگین مشکلات کا سامنا ہے۔ ہسپتال میں روزانہ سینکڑوں مریض رجوع کرتے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین کی ہوتی ہے، تاہم اب تک ہسپتال میں کسی خاتون سونولوجسٹ کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔

 

چند روز قبل ایک وائرل ویڈیو میں مرد سونولوجسٹ کو خاتون مریض کا الٹرا ساؤنڈ کرتے دیکھا گیا، جس پر خواتین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ خاتون مریضوں کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے، کیونکہ اکثر خواتین امراض نسواں سے متعلق مسائل مرد ڈاکٹروں یا ٹیکنیشنز کے سامنے بیان کرنے میں ہچکچاتی ہیں۔ اس لیے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں مرد سونولوجسٹ کے ذریعے الٹرا ساؤنڈ کروانا خواتین کے لیے ایک ناگزیر مجبوری بن چکا ہے۔

 

ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم خان نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ہسپتال نے تین مرتبہ خاتون سونولوجسٹ کی تعیناتی کے لیے اشتہار دیا، مگر اب تک خیبرپختونخوا میں مطلوبہ معیار پر پورا اترنے والی کوئی بھی فی میل سونولوجسٹ دستیاب نہیں ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ مطلوبہ معیار کے تقاضوں میں نرمی لانے پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ تقرری ممکن ہو سکے۔

 

واضح رہے کہ ہسپتال کے ٹیکنیشن نے اس معاملے پر موقف اختیار کرنے اور بیان دینے سے انکار کر دیا ہے۔

 

فلاحی ادارے کی سربراہ شوانہ اسلم نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایل آر ایچ کے ترجمان کے مطابق خاتون سونولوجسٹ مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اتر رہیں، جس کی وجہ سے اب تک تعیناتی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔

 

 شوالہ اسلم نے کہا کہ سائنس اور دیگر ایسے شعبے جہاں خواتین آگے بڑھ سکتی ہیں، وہاں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ خیبرپختونخوا میں خواتین کے لیے مواقع محدود ہیں اور انہیں آگے بڑھنے کے لیے مناسب ترغیب بھی نہیں دی جاتی۔ خواتین کو عموماً ڈاکٹر یا ٹیچر جیسے شعبوں تک ہی محدود رکھا گیا ہے، جبکہ ریڈیولوجسٹ اور سونولوجسٹ جیسے تکنیکی شعبوں میں خواتین کی حوصلہ افزائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ 

 

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کے طبی مسائل کے لیے خواتین ڈاکٹروں کی موجودگی ناگزیر ہے، کیونکہ بیشتر خواتین مرد ڈاکٹروں سے اپنے  طبی مسائل پر بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیادہ تر خواتین دیہی علاقوں سے آتی ہیں، جہاں الٹراساؤنڈ جیسے حساس معائنے کے دوران مرد سٹاف کی موجودگی مناسب نہیں سمجھی جاتی، جس کی وجہ سے خواتین بالکل بھی مطمئین نہیں ہوتیں ۔

 

شوانہ اسلم نے سوال اٹھایا کہ کیا پورے صوبے میں کوئی ایک بھی خاتون ایسی موجود نہیں جو مطلوبہ معیار پر پوری اترتی ہو؟ اگر نہیں، تو اس کی وجوہات کیا ہیں اور اب تک تعیناتی کیوں ممکن نہیں ہو سکی؟ انہوں نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اس مسئلے کو طویل عرصے سے نظرانداز کیا گیا ہے، جس کے باعث کتنی ہی خواتین علاج سے محروم رہ گئی ہوں گی۔

 

یاد رہے کہ سونولوجسٹ وہ طبی ماہر ہوتا ہے جو الٹراساؤنڈ مشین کے ذریعے جسم کے اندرونی اعضاء کا معائنہ کرتا ہے۔ یہ ماہر خاص طور پر حمل کے دوران ماں اور بچے کی صحت جانچنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ سونولوجسٹ کی رپورٹ کی بنیاد پر کئی اہم طبی فیصلے کئے جاتے ہیں۔