ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
"چند لمحوں میں سب کچھ بہہ گیا"خیبر پختونخوا کے کسان موسمیاتی تبدیلی کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں Home / خیبر پختونخوا,عوام کی آواز,ماحولیات /

"چند لمحوں میں سب کچھ بہہ گیا"خیبر پختونخوا کے کسان موسمیاتی تبدیلی کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں

مہرین خالد - 20/10/2025 239

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔ صنعتی اخراج، ٹرانسپورٹ، اور توانائی کے غیر مؤثر استعمال نے فضا میں گرین ہاؤس گیسوں، خصوصاً کاربن ڈائی آکسائیڈ، کی مقدار خطرناک حد تک بڑھا دی ہے۔ نتیجتاً، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور شدید موسمیاتی واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو ان اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

 گلیشیئرز کے پگھلنے، غیر متوقع بارشوں، تباہ کن سیلابوں اور ہیٹ ویوز نے ملک کی معیشت، زراعت اور عوامی صحت پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔
گلگت بلتستان میں گلیشیئر کے تودے گرنے اور 2010، 2022 اور 2025 کے سیلاب اس بحران کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ حالیہ بارشوں اور سیلابوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کی ہے کہ کلائمیٹ چینج اب مستقبل کا خطرہ نہیں بلکہ ایک موجودہ حقیقت ہے۔

 

زرعی تباہی کی سرکاری عداد و شمار

خیبر پختونخوا ان صوبوں میں شامل ہے جہاں موسمیاتی بحران کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ حالیہ خریف سیزن میں طوفانی بارشوں اور اچانک آنے والے سیلابوں نے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کو تباہ کر دیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں مجموعی طور پر 19 لاکھ 65 ہزار 656 ایکڑ زمین پر خریف کی فصلیں کاشت کی گئیں، جن میں سے 1 لاکھ 10393 ایکڑ زمین متاثر ہوئی جو کل رقبے کا تقریباً 5.2 فیصد بنتی ہے۔

 

سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان بونیر، باجوڑ اور سوات کے اضلاع میں ہوا۔ بونیر میں 23 ہزار 637 ایکڑ، باجوڑ میں 11 ہزار 404 ایکڑ اور سوات میں 3 ہزار 556 ایکڑ زمین متاثر ہوئی۔
اہم فصلیں، جیسے مکئی، چاول اور سبزیاں، بری طرح متاثر ہوئیں۔ کسانوں کے لیے یہ صرف مالی نقصان نہیں بلکہ برسوں کی محنت کے ضیاع کے مترادف ہے۔

 

چند لمحوں میں سب کچھ بہہ گیا

ضیاء اللہ، ضلع بونیر کے علاقے سوڈیر کے رہائشی ہیں۔ جس کی عمر تیس سال ہے، پیشے کے لحاظ سے دکاندار ہیں، مگر کھیتی باڑی بھی ان کا ذریعہ معاش ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ سیلاب سے تین دن قبل تک بارش مسلسل ہوتی رہی، لیکن جس روز تباہی آئی، صبح کے وقت موسم صاف تھا۔

ہم نے سمجھا خطرہ ٹل گیا ہے، مگر "بارششروع ہوئی اور چند لمحوں سب کچھ بہہ گیا" پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہوا کہ پورا گاؤں ڈوب گیا۔ سیلابی ریلہ اپنے ساتھ پتھر ، درخت اور بڑے بڑے چٹان بہا کر لا رہا تھالوگ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ جب روشنی ہوئی تو ہر کوئی اپنے پیاروں، مویشیوں اور فصلوں کو تلاش کر رہا تھا۔

 

ضیاء اللہ کے مطابق، گاؤں میں جانی نقصان تو کم ہوا، مگر مالی نقصان بہت بڑا تھا۔میرے پاس بارہ کنال کرائے کی زمین تھی، جس پر مکئی اور مٹر کی فصل تھی۔ سیلاب نے سب کچھ بہا دیا۔ اب صرف چار کنال زمین بچی ہے، باقی مکمل تباہ ہو چکی ہے۔ زمین درست کرنے کے لیے بھاری مشینری چاہیے مگر وسائل نہیں۔ ہم ہر سال ان زمینوں کا 70 سے 80 ہزار روپے کرایہ دیتے ہیں، مگر اب اتنی استطاعت بھی نہیں رہی۔

 

ضیاء اللہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے جانی نقصان اٹھانے والوں کی مدد کی، مگر مالی نقصان برداشت کرنے والے کسان آج بھی بے یار و مددگار ہیں۔
ہم اپنی مدد آپ کے تحت زمین کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر حالات بہت سخت ہیں۔


حکومت نے چیک دیا، مگر وہ باؤنس ہوگیا

اسی علاقے کے ایک اور کسان شاہ ولی خان پیشے کے لحاظ سے دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ پندرہ اگست کی صبح آنے والے سیلاب نے ان کا سب کچھ چھین لیا۔

 شاہ ولی خان کا کہنا ہے کہ سیلاب کے وقت ہمارے پاس صرف جان بچانے کا وقت تھا۔ ہم بچوں کو لے کر رشتہ داروں کے گھر بھاگ گئے۔ جب واپس آئے تو گھر ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ ہماری اکیس کنال زمین پر مکئی کی تیار فصل تھی، جو مکمل طور پر بہہ گئی۔ اب زمین قابل کاشت نہیں رہی۔

 

شاہ ولی خان بتاتے ہیں کہ حکومت نے دس لاکھ روپے کا چیک دیا، مگر وہ کیش نہیں ہو سکا۔"چیک باؤنس ہوگیا، اور اب وہ میرے پاس ایک کاغذ کے سوا کچھ نہیں۔" ہم آج بھی ایک کمرے میں رشتہ داروں کے گھر رہ رہے ہیں۔ حکومت صرف وعدے کر رہی ہے، عملی مدد نہیں۔


یہ قدرتی نہیں انسانی بحران ہے

ماحولیاتی صحافی آصف مہمند کے مطابق، پاکستان میں حالیہ تباہ کاریاں کلائمیٹ چینج کا براہ راست نتیجہ ہیں۔2025 کا سیلاب اقوام متحدہ کی پیشگوئی کے عین مطابق تھا۔ عالمی ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے تھے کہ مون سون سیزن مزید شدید ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان نے اس خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
آصف مہمند کے مطابق، تباہی کی بڑی وجہ صرف موسمیاتی تبدیلی نہیں بلکہ حکومتی نااہلی بھی ہے۔

 

ہمارے پاس ویدر مانیٹرنگ سسٹم ناکافی ہیں، ابتدائی وارننگ کا نظام کمزور ہے، اور عوامی آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قدرتی آفت ہمارے لیے ایک نیا سانحہ بن جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے دو حکمت عملیاں اپنائی جاتی ہیں Mitigation (اخراج میں کمی) اور Adaptation (موزونیت یا تیاری)۔

پاکستان نے پالیسی سطح پر دونوں کو تسلیم کیا ہے، مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ درخت لگانے جیسے منصوبے طویل المدتی ہیں، لیکن فوری ضرورت ایسے اقدامات کی ہے جو مقامی سطح پر آفات کے اثرات کو کم کر سکیں۔

 

وقت کا تقاضا پالیسی نہیں، عمل

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اب بھی مؤثر حکمت عملی اختیار نہ کی تو موسمیاتی تبدیلی ملک کے لیے غذائی بحران، معاشی عدم استحکام اور انسانی بقا کے خطرات پیدا کر سکتی ہے۔

سیلابوں، گلیشیئرز کے پگھلنے، زمین کے کٹاؤ اور غیر متوازن موسموں نے پاکستان کے ماحولیاتی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

تازہ ترین