کیف آفریدی
ملک کے بالائی علاقوں میں بارش اور برفباری کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کے کچھ میدانی علاقوں میں بھی بارش ہوئی۔ اکتوبر کے آغاز کے ساتھ ہی بالائی علاقوں میں برفباری شروع ہوئی، جس سے موسم سرد ہو گیا اور یوں موسمِ سرما نے وقت سے پہلے دستک دے دی۔ سوشل میڈیا پر تبصرے کئے جا رہے ہیں کہ اس مرتبہ سردی غیر معمولی طور پر شدید ہوگی۔ اس حوالے سے خیبرپختونخوا کے چند علاقوں کے حالات جاننے کے لیے ٹی این این نے وہاں کے ماحولیاتی صحافیوں سے رائے لینے کی کوشش کی ہے۔
سوات میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نمایاں
سوات سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی صحافی عارف احمد نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ سوات میں عموماً 15 اگست کے بعد موسم میں تبدیلی محسوس ہونا شروع ہو جاتی تھی، اور ستمبر کا مہینہ سردی کے آغاز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ مقامی مشران کے مطابق، ماضی میں یہاں کئی کئی دن تک بارشوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا، جس کے باعث لوگ گھروں میں محصور ہو جاتے تھے۔ اُس زمانے میں برفباری مینگورہ شہر تک ہوا کرتی تھی۔ مجھے خود بھی یاد ہے کہ بچپن میں سردیوں کے دنوں میں گھر کے تمام افراد انگیٹھی کے گرد بیٹھ کر خود کو گرم رکھتے تھے۔
تاہم گزشتہ چند برسوں میں موسم میں نمایاں تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ بارشوں کے اوقات بدل گئے ہیں، سردیوں کے مہینے جیسے گرمیوں میں ضم ہو گئے ہیں، اور وہ برفباری جو کبھی اگست کے آخر میں سوات کے بالائی علاقوں میں شروع ہو جایا کرتی تھی، اب اکتوبر میں شروع ہوتی ہے۔ یہ تبدیلیاں واضح طور پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو ظاہر کرتی ہیں۔
عارف احمد کے مطابق موسمیاتی تبدیلی نہ صرف موسم بلکہ یہاں کے قدرتی نظام کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث سوات کے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جبکہ سردیوں کے مختصر دورانیے نے برفباری میں نمایاں کمی کر دی ہے۔ نتیجتاً، سوات کا موسم اب پہلے کی نسبت کہیں زیادہ گرم ہوتا جا رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کا اثر زرعی پیداوار پر بھی پڑ رہا ہے۔ وہ فصلیں جو سرد موسم کی مرہونِ منت تھیں، اب کم کاشت کی جاتی ہیں، اور ان کی جگہ گرم موسم کے لیے موزوں فصلیں لی چکی ہیں۔ یہ تمام عوامل اس بات کا ثبوت ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سوات کے ماحول، معیشت اور طرزِ زندگی پر گہرے اثرات ڈال رہی ہے۔
اپر دیر: اکتوبر میں برفباری، سردی کی قبل از وقت دستک
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے ضلع اپر دیر میں بھی سردی نے قبل از وقت انٹری دے دی ہے۔ مقامی صحافی ناصر زادہ نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ دیر بالا میں عموماً سردیاں نومبر اور دسمبر میں شروع ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق ہر سال 22 دسمبر کے بعد تعلیمی ادارے بھی بند ہو جاتے ہیں، تاہم پچھلے چند برسوں سے سردی کا آغاز اکتوبر میں ہی ہونے لگا ہے۔ یہ سردی عارضی نوعیت کی ہوتی ہے، یعنی کبھی موسم بہت سرد ہو جاتا ہے اور کبھی نسبتاً گرم۔
ناصر زادہ کے مطابق دیر بالا کے بالائی علاقوں میں برفباری نومبر میں ہوتی ہے، جبکہ میدانی علاقوں میں دسمبر کے آخر سے مارچ تک وقفے وقفے سے برفباری جاری رہتی ہے۔ تاہم پچھلے کئی سالوں سے اس کے دورانیے میں فرق آیا ہے۔ کبھی سردی بہت شدید ہوتی ہے، اور برفباری و بارشیں معمول سے زیادہ ہو جاتی ہیں۔ رواں سال موسمِ سرما کی پہلی برفباری دیر بالا کے علاقے جہاز بانڈہ، جو کہ بالائی علاقہ ہے میں ہوئی ہے، جس سے موسم نے اچانک انگڑائی لی ہے۔
ضلع کرم: سردی کی جلد آمد، خشک لکڑی کی قیمتیں بڑھ گئیں
قبائلی ضلع کرم میں بھی کوہِ سفید پر برفباری اور ژالہ باری ہوئی ہے، جس سے سردی نے وقت سے پہلے ڈیرے ڈال دیے ہیں۔ پاڑا چنار سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی علی افضل نے ٹی این این کو بتایا کہ کرم میں عام طور پر سردی نومبر کے مہینے سے شروع ہوتی ہے، لیکن اس سال اکتوبر میں ہی ٹھنڈ نے اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں، جو کہ موسمیاتی تبدیلی کی طرف واضح اشارہ ہے۔ لوگوں نے ایک مہینہ پہلے ہی گرم کپڑوں اور کوٹوں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سردی کے اچانک آغاز کی وجہ سے ضلع کرم میں خشک لکڑی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاڑاچنار، علیزئی اور صدہ کے علاقوں میں لوگ کمروں کو گرم رکھنے کے لیے انگیٹھیوں کا استعمال کرتے ہیں، جن کے لیے خشک لکڑی درکار ہوتی ہے۔ سردی کی اچانک آمد سے لکڑی کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔
علی افضل کے مطابق ضلع میں شدید بارشیں بھی معمول سے زیادہ ہو رہی ہیں، جن کے باعث ندی نالوں میں طغیانی آ جاتی ہے اور فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ پہلے موسم کا تعین آسان تھا، بارشیں وقت پر ہوتی تھیں اور سردی کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا تھا، لیکن اب سردی اچانک آتی ہے، جس کے باعث معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں۔
ماہرین کا انتباہ: رواں سال شدید سردی کا امکان
یاد رہے کہ موسمیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اس سال کئی دہائیوں کی سب سے شدید سردی کا سامنا کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق "لا نینا" ایک قدرتی مظہر ہے، جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بحرالکاہل کے وسطی اور مشرقی حصوں میں سمندر کا درجہ حرارت معمول سے کئی درجے کم ہو جاتا ہے۔ اس عمل سے دنیا بھر کے موسموں پر اثر پڑتا ہے؛ بعض خطوں میں بارشیں بڑھ جاتی ہیں جبکہ بعض علاقوں میں خشک سالی کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان اور جنوبی ایشیا میں لا نینا کے دوران عموماً سردیاں طویل اور نسبتاً خشک ہوتی ہیں۔
یہ رجحان پاکستان کے شمالی علاقوں میں شدید برفباری، یخ بستہ ہواؤں اور میدانی علاقوں میں طویل کہر (دھند) کا باعث بن سکتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اب خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں واضح طور پر محسوس کئے جا رہے ہیں۔ محکمہ موسمیات خیبرپختونخوا نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران موسم میں نمایاں تغیر رونما ہوا ہے۔ ان میں مون سون کے اوقات میں رد و بدل، اچانک اور شدید بارشیں، موسم سرما اور گرما کی مدت میں واضح فرق، اور گرمیوں کے دورانیے میں اضافہ شامل ہے۔ یہ تمام مظاہر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہی ہیں۔