ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
خیبرپختونخوا حکومت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے؟ Home / خیبر پختونخوا,عوام کی آواز,ماحولیات /

خیبرپختونخوا حکومت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے؟

کیف آفریدی - 09/09/2025 318
خیبرپختونخوا حکومت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے؟

کیف آفریدی

 

خیبرپختونخوا حکومت صوبے میں موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم مسئلے پر کونسے اقدامات اٹھا رہی ہے؟

اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی شعبہ انورمنٹل سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر نفیس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، انکے مطابق خیبرپختونخوا حکومت موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کئی اقدامات کئے ہیں اور مزید کوشش کر رہی ہے۔ 

کچھ اہم اقدامات درج ذیل ہیں۔

 

پلانٹ فار پاکستان مہم

 

صوبائی حکومت نے جنگلات کی بحالی اور شجرکاری کو فروغ دینے کے لیے "پلانٹ فار پاکستان" جیسے پروگراموں میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ اس کی ایک مثال خیبرپختونخوا میں "بلین ٹری سونامی" کے تحت لاکھوں درخت لگائے گئے ہیں، جس سے کاربن کے اخراج میں کمی اور ماحولیاتی توازن بہتر بنانے میں مدد مل رہی ہے۔

 

ری نیوایبل انرجی پر توجہ

 

 خیبر پختونخوا دو قسم کے توانائی کے ذرائع پر کام کر رہی ہے۔ ایک ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور دوسرا شمسی توانائی  پراجیکٹ۔ اس سلسلے میں کئی پراجیکٹ لانچ بھی کئے ہیں۔ مثلا دریائے سوات، دریائے پنجکوڑا پر کئی پراجیکٹ شروع کئے ہیں۔ اس کے علاوہ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر بھی کام مکمل ہونے والا ہے۔ جو صوبے کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔

 

 شمسی توانائی کے استعمال کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ زمیندار کو شمسی ٹیوب ویل، مساجد میں سولر پینل چند ایک مثالیں ہیں۔ 

 

موسمیاتی تبدیلی کے لیے پالیسی سازی 

 

خیبرپختونخوا حکومت نے "صوبائی موسمیاتی تبدیلی پالیسی" 2022 میں بنائی ہے،اور اس کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی کو لاگو کرنے کے لئے ایکش پلان بھی بنا رکھا ہے۔ جس پر کافی تک کام ہو رہا ہے۔ پالیسی اور ایکشن پلان کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنا اور عوام کو اس کے لیے تیار کرنا ہے۔ اس کے تحت زراعت، پانی کے ذخائر اور انفراسٹرکچر کو موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھالنے پر کام ہو رہا ہے۔

 

ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان 

 

ڈاکٹر نفیس کے مطابق  اس کے لئے صوبے کے سطح پر الگ سے ادارہ بنا رکھا ہے۔ صوبے میں سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور دیگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بہتر ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان بنائے گئے ہیں۔ یہ ادارہ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم بھی چلاتی ہے۔

 

 اور جہاں پر ضرورت ہو، مدد کے لئے موقع پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ادارہ ہر سال مون سون بارشوں سے بچنے کے لیے پلان تیار کرتا ہے۔  اس کے علاوہ یہ عام لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے کمیونٹی بیسڈ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کے تحت مقامی لوگوں کو تربیت دیتی ہے۔

 

5. پانی کے تحفظ کے اقدامات: واٹر ریسورس مینجمنٹ کے تحت ڈیموں اور نہروں کی بحالی پر کام کیا جا رہا ہے۔  اس ساتھ  بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے "واٹر ہارویسٹنگ' کے منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔ واٹر ہارویسٹنگ' پر کام سست ہو رہا ہے، جس میں تیزی لانا ہوگی۔

 

عوامی بیداری مہمات

 

  پروفیسر نفیس کے مطابق حکومت نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عوام میں آگاہی  پیدا کرنے کے لیے مختلف مہمات چلائی ہیں، جن میں سکولوں، کالجوں اور میڈیا کے ذریعے  پیغامات پھیلائے جا رہے ہیں۔

 

بی آر ٹی اور شمسی توانائی پر چلنے والی گاڑیاں

 

 بی آر ٹی تو پہلے سے بنی ہوئی ہے اور شمسی توانائی پر چلنے والی گاڑیوں کی ابھی صرف شروعات ہی ہے، لیکن اس میں تیزی لانی ہو گی۔

 

خیبرپختونخوا حکومت موسمیاتی تبدیلی کو ایک اہم چیلنج سمجھتے ہوئے اس کے حل کے لیے جامع حکمت عملی اپنا رہی ہے۔ تاہم، وسائل اور عملدرآمد میں تیزی لانے کی ضرورت ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔

 

چند روز قبل خیبرپختونخوا حکومت کا موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کےلئے خود مختار کلائمیٹ ایکشن بورڈ کے قیام کا فیصلہ کیا ہے، کلائمیٹ ایکشن بورڈ 8 انتظامی سیکرٹریوں اور 4 نجی شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہوگا جوموسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پالیسی تیار کرنا،تحقیق بین لاقوامی ادروں کیساتھ رابطے اور گرین ہاؤس گیسز کی فہرست تیار کرنے کے ساتھ مختلف محکموں کے روابط برقرار رکھنا بورڈ  کا  مینڈیٹ ہو گا ، خیبر پختونخوا گزشتہ کئی عرصے سے موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں جس کی وجہ جانی اور مالی نقصان اٹھا رہاہے۔ 

 

کلائمیٹ ایکشن بورڈ کا قیام صوبے کے لیے کتنا مفید ہے؟

 

کلائمیٹ چینج صحافی آصف مہمند نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ صوبے میں ایسے ادارے کا  قیام  وقت کی اہم ضرورت ہے، حکومت کا یہ اقدام خوش آئند تو ہے، لیکن پالیسی 2016 میں بنی ہے ، پر اب تک خیبرپختونخوا میں ہم کلائمیٹ چینج سے نمٹ نہیں سکے۔ جیسے کہ صوبے میں موسمیاتی تبدیلی کے جو اثرات ہے، وہ ہر سال زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اداروں کا آپس میں منظم رابطہ نہیں ہے۔ کیونکہ جب ہم متعقلہ ادارے سے کمنٹس لیتے ہیں تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ یہ ہمارا مینڈیٹ نہیں ہے وغیرہ۔ میرے خیال میں بنیادی طور پر پالیسی کو موسمیاتی تبدیلی کے زاویہ سے دیکھنا ہو گا۔ 

 

آصف مہمند کے مطابق اسی طرح بورڈ بھی بنے ہیں،  کلائمیٹ سیل بھی بنے ہیں لیکن ہم نے انکا خاطر خواہ نتیجہ نہیں دیکھا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اگر خیبرپختونخوا حکومت نے موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدہ لینے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے پھر فعال کرنا چاہیے۔

 

 کیونکہ اس سے پہلے بھی بورڈز اور کلائمیٹ چینج سیل بنے تھے، جن کا کوئی خاص کام ہم نے نہیں دیکھا۔ اس لیے تب تک ہم اسے کامیاب نہیں کہہ سکتے جب تک یہ فعال نہ ہو اور انکے کام کے فائدے نظر نہ آجائے۔ 

 

کلائمیٹ ایکشن بورڈ کتنا مفید رہے گا یہ آنے والے وقت ہی بتائے گا۔ تاہم اگر دیکھا جائے تو ہر سال خیبرپختونخوا مون سون کی بارشیں تباہ کن ہوتی ہے۔ رواں سال بھی خیبرپختونخو کے مختلف اضلاع میں طوفانی بارشوں اور اربن فلڈنگ سے 416 افراد جاں بحق اور 135 زخمی ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے رپورٹ کے مطابق 2562 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔

 

 

 

اگر دیکھا جائے تو سال 2025 میں بارش اور سیلابوں کے کئی ایسے واقعات رونما ہوئے، جس کو آسمانی بجلی اور بادل کے پھٹنے سے منسوب کرتے ہیں۔ جس میں بونیرکے علاقے، بابو سر ٹاپ، ناران، سوات اور باجوڑ او کے علاقے قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی جگہوں پر بارش کے ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ لیکن یہ چند ایک بہت مشہور ہیں۔ اس سے سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ اس دفعہ بونیر میں کلاؤڈ برسٹ نے زیادہ تباہی مچا دی۔

 

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کلاوڈ برسٹ یعنی بادلوں کا پھٹنا ہوتا کیوں ہے، اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ کیا اس کے لئے کوئی الرٹ سسٹم ہو سکتا ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھنی ہے کہ اچانک سیلاب کے آنے کی وجوہات صرف بادلوں کا پھٹنا نہیں ہوتا۔ اس کی اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ حکومتی اداروں کو ایسے چیلجنز کا سامنا ہے جن کا حل ضروری ہے۔ 

 

تازہ ترین