کیف آفریدی
خیبر پختونخوا کے جنگلات میں سمارٹ مائننگ کےلئے ایس او پیز کی تیاری پر کام جاری ہیں۔ اس حوالے سے محکمہ خزانہ نے اینٹٰی کرپشن، معدنیات، کلائمیٹ چینج اور محکمہ قانون کو مراسلہ جاری کر دیا گیا۔ مراسلہ میں بتایا گیا ہے کہ ایس اوپیز کے تحت صوبے کے تمام جنگلات میں کان کنی کی مشروط اجازت دی جائے گی۔ مجوزہ ایس او پیز کے تحت چیف کنزرویٹر کی سربراہی میں قائم کمیٹی فارسٹ مائننگ کےلئے اجازت دیگی۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ سمارٹ مائننگ سے محکمہ جنگلات کرایہ، مراعات اور معاوضہ وصول کریگا۔ محکمہ جنگلات نے اس حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ جنگلات میں سمارٹ مائننگ سے قیمتی درختوں کی جڑیں کٹنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
اسی طرح مائننگ کے باعث جنگلی حیات کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ان کے علاقہ چھوڑنے کے بھی خدشات ہیں۔ مائننگ سے جنگلات کی کٹائی سے مقامی آبادی اور جنگلی حیات بھی شدید متاثر ہوں گے۔
کیا صوبائی حکومت کی اس نئے پالیسی سے جنگلات محفوظ رہ سکتے ہیں؟
خیبرپختونخوا کے کلائمیٹ چینج پالیسی کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور ان کو جذب کرنے والے زرائع کو بہتر بنانے کے اقدامات کو تخفیف کہا جاتا ہے ،اس طرح ایسے اقدامات و تدابیر اختیار کرنا جو قدرتی اور انسانی نظاموں کو ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے سامنے کمزور ہونے سے محفوظ بنایا جا سکے، اس عمل کو ایڈاپٹیشن کہتے ہیں۔
صوبائی حکومت نے مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں جنگلات، جنگلی حیات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم شعبوں کو خصوصی ترجیح دیتے ہوئے 62 مختلف نئے اور جاری منصوبوں کے لیے خطیر رقم مختص کی ہے،مذکورہ شعبوں کے 33 منصوبوں پر کام جاری ہے جبکہ 29 نئے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا جائے گا۔
صوبائی حکومت کی جانب سے مالی سال26-2025 کے بجٹ میں ان منصوبوں کے لئے تقریبا 4 ارب 40 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں، جاری منصوبوں کے لئے تین ارب 79 کروڑ 40 لاکھ روپے جبکہ نئے منصوبوں کے لیے تقریباً 445 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
اسی طرح جنگلات کے شعبے میں 10 بلین ٹری سونامی پروگرام، گرین پاکستان پروگرام کو وسعت دینے اور جنگلاتی وسائل کے احیاء کے لیے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جنگلی حیات کے تحفظ اور عوام بالخصوص بچوں کی تفریح کی غرض سے کانجو ٹاؤن شپ سوات میں منی چڑیا گھر کے قیام کے لیے 371.5 ملین روپے جبکہ پشاور ڈویژن میں چڑیا گھر کے لیے 405.5 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت نے موسمیاتی تغیر جیسے اہم شعبے میں مختلف اہم منصوبوں کے لیے بجٹ میں 454 ملین روپے رکھے گئے ہیں، اور بجٹ میں ماحولیاتی تحفظ کو اولین ترجیح دی ہے ماحولیات کے تین جاری اور دو نئے منصوبوں کے لئے تقریبا 94 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اسی طرح صوبائی حکومت کا مذکورہ شعبہ جات کو ترجیح دینا صرف ماحول کا تحفظ ہی نہیں بلکہ عوام کو صاف ستھرا اور تفریحی ماحول فراہم کرنا بھی ہے۔
اس حوالے سے خیبرپختونخوا کے وزیراعلی کے معاون خصوصی برائے جنگلات و ماحولیات پیر مصور خان کی نگرانی میں ان تمام منصوبوں کی تکمیل سے خیبرپختوا سر سبز اور شاداب بن جائے گا۔ لیکن ایسا تب ممکن ہے کہ یہ تمام منصوبی عملی ہو جائے اور احسن طریقے سے مکمل کئے جائے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیو لپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای ) کے تحقیقی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو گزشتہ 24 سال میں 20 فیصد جنگلات کے رقبے سے محروم ہونا پڑا ہے۔ جس کی بڑی وجہ شہری آبادیوں میں اضافے اور توانائی ذرائع میں کمی کو بتایا گیا ہے۔ دی بلین ٹری سونامی پراجیکٹ پرجیکٹ کے تحت چیلنجوں او ر مواقع پر تحقیق پر معلوم ہو ا کہ پاکستان میں جنگلات کی شرح پوری دنیا میں کم تر ین ہے۔ جہاں ہر سال 27 ہزار ایکڑ رقبے پر جنگلات کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیاء میں پاکستان 36 فیصد اور بنگلہ دیش 34 فیصد میں جنگلات کی نجی ملکیت ارب سے زیادہ ہے۔
خیبرپختونخوا میں جنگلات تو سب سے زیادہ، لیکن ماحولیاتی تبدیلی کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے
رقبے کے لحاظ سے سب سے زیادہ جنگلات خیبرپختونخوا میں ہیں۔ ان کے بعد سندھ، پنجاب، قبائلی اضلاع، آزاد کشمیر اور پھر گلگت بلتستان کا نمبر آتا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیو لپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای ) کے تحقیقی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ جنگلات میں کمی کی وجوہ آباد ی میں تیزی سے اضافہ غربت شہروں کے پھیلاؤ توانائی جیسے قدرتی گیس کی قلت بتائی جاتی ہیں ۔
لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں انفرا سٹرکچر ڈیولپمنٹ شاہراہوں اور موٹرو یز و ہائی ویز کی تعمیر سے بھی جنگلات کو شدید متاثر کیا ہے ۔ پاکستان میں دنیا بھر میں درختوں کی سب سے کم تعدادایک ارب ہے جو 1131درخت فی مربع کلو میٹر بنتے ہیں جو صرف افغانستان کے مقابلے میں زیادہ ہیں ۔ جو ممالک رقبے میں بڑے ہیں وہاں درختوں کی تعداد بھی انہتا ہی زیادہ ہے ۔
جیسے روس میں 642ارب کینیڈا میں318ارب برازیل میں 302ارب اور امریکا میں228ارب درخت ہیں ۔ پاکستان میں جنگلات کی لکڑی چولہے جلانے سمیت گھریلوں استعمال میں کام آتی ہے ۔ دنیا میں جنگلات کا تناسب 31.2فیصد اور جنوبی ایشیاء میں18.9فیصد ہے ۔مثالی طور پر کسی ملک میں جنگلات کا تناسب 25فیصد ہونا چاہئے۔
کیا درخت ماحولیاتی تبدیلی کو روک سکتی ہیں؟
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق درخت فضاء سے کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ موسمیاتی تبدیلی میں کاربن ڈائی آکسائڈ کا بڑا کردار ہے اور درخت فضاء سے کاربن ڈائی آکسائڈ ہٹانے میں معاونت کرتے ہیں۔
فضا سے پچیس فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ سمندروں میں جذب ہوتا ہے اور تیس فیصد درخت جذب کرتے ہیں جبکہ باقی پینتالیس فیصد رہ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس لئے بڑے پیمانے پر درخت موسمیاتی تبدیلی میں مدد تو کرتے ہیں لیکن صرف اس سے موسمیاتی تبدیلی کو مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ باقی ماندہ پینتالیس فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ کو ہٹانے کے لئے جتنے درختوں کی ضرورت ہوگی اتنی جگہ ہمارے پاس ہے نہیں۔
اگر کوئی درخت تب تک خشک نہ ہو یا کوئی انسانی زندگی کو خطرہ نہ ہو تو انکا کاٹنا انتہائی غلط ہے۔
پاکستان میں خیبر پختوںخوا کلائمیٹ چینج کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے دنیا بھر میں موسموں میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ دوسری جانب شدید موسمی واقعات میں اضافے سے خیبر پختونخوا سمیت وہ خطے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جہاں سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچہ فعال نہیں ہے۔