حمیرا علیم
2009 میں سوات میں طالبان نے لڑکیوں کے سکولز پر پابندی لگا دی تھی۔ ایسے میں ایک گیارہ سالہ طالبہ نے "گل مکئی" کے نام سے اپنی ڈائری بی بی سی کو بھیجنی شروع کی، جس میں وہ طالبان کے دور میں ایک طالبہ کی زندگی کی مشکلات کی عکاسی کر رہی تھی۔ یہی گل مکئی آج نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ملالہ پر حملہ ہوا جس میں وہ شدید زخمی ہوئیں، علاج کے لیے برطانیہ بھیجی گئیں اور پھر طالبان کی دھمکیوں کے باعث وہیں رہائش اختیار کر لی۔
ملالہ کی پہلی کتاب I Am Malala اُن کی جدوجہد، تعلیم کی خواہش اور دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئی تھی۔ مگر دوسری کتاب Finding My Way جو ابھی مارکیٹ میں آئی نہیں، اس کے چند اقتباسات متنازعہ ہونے کی وجہ سے خوب چرچا میں ہیں۔ اب یہ تشہیری حربہ ہے یا حقیقت میں متنازعہ مواد، اس کا فیصلہ تو کتاب پڑھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی کتاب پڑھوں گی ان شاء اللہ اس پر تبصرہ ضرور کروں گی، فی الحال ان اقتباسات پر بات کرتے ہیں جو ملالہ کے انٹرویوز اور اخبارات میں منظر عام پر آئے ہیں۔
اس کتاب کے بارے میں مختلف آراء پائی جا رہی ہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ حقیقت پر مبنی ہے جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ملالہ کے انکشافات معاشرتی قدروں اور نوجوانوں کے لیے رول ماڈل کی روایتی تصویر سے ہٹ کر ہیں، جس سے ان کے امیج کو نقصان پہنچے گا۔ ناشر کے مطابق، یہ کتاب “buzzes with authenticity, humor, and tenderness” یعنی خلوص، مزاح اور نرمی سے بھرپور ہے۔ ملالہ نے خود کو ہیرو بنا کر نہیں بلکہ ایک عورت کے طور پر پیش کیا ہے۔
نہ صرف اپنی ذات بلکہ معاشرتی سوچ کے آئینے پر بھی ایک دراڑ ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ ہیرو بننا آسان مگر انسان بننا مشکل ہے۔ یہ ملالہ کی وہ کتاب ہے جس میں ہیروئین اپنی انسانی پہچان واپس لیتی ہے۔ یہ صرف ایک میموائر نہیں بلکہ خودی، محبت، آزادی اور سماجی حدود توڑنے کی کہانی ہے۔
میرے لیے ملالہ کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنا، میڈیا کا اسے غیر معمولی اہمیت دینا، اور برطانیہ کا اسے فیملی سمیت شہریت و سیکیورٹی دینا بے حد حیرت انگیز تھا۔ کیونکہ ملالہ سے پہلے بھی ہزاروں بچے طالبان کے ہاتھوں جان سے گئے یا معذور ہوئے مگر نہ پاکستانی حکومت کو پرواہ ہوئی نہ کسی مغربی ملک نے نوٹس لیا۔ پھر ملالہ کو اتنا پروٹوکول کس بنیاد پر ملا؟ اس کا جواب تب ملا جب برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب نے اس کی کتاب I Am Malala لکھی۔ کہا گیا کہ یہ کتاب ملالہ اور کرسٹینا نے مل کر لکھی تھی۔
یوں ملالہ جیسی عام لڑکی کو ہیرو بنایا گیا حتیٰ کہ اسے نوبل انعام بھی دلوا دیا گیا، حالانکہ بظاہر اس کا کوئی ایسا کارنامہ نظر نہیں آتا۔ اگر صرف حملہ ہونے کی بنیاد پر یہ انعام دیا گیا تھا تو کے پی اور بلوچستان کے ہر بچے کو اس سے زیادہ حق حاصل تھا۔ لیکن مغرب کا ایجنڈا "سلو اینڈ سٹیڈی ونز دا ریس" کے تحت پروان چڑھتا ہے۔ پہلے ملالہ کو ہیرو بنایا گیا، پھر اس کے ذریعے نئی نسل کے خیالات بدلے گئے۔ اس کی ہر حرکت، خواہ اچھی یا بری، ایک ٹرینڈ بنا دی گئی جس سے اس کی اپنی زندگی بھی متاثر ہوئی۔ اس حقیقت کا اعتراف ملالہ کی دوسری کتاب میں جھلکتا ہے۔
اگر ملالہ کو ہیرو مان لیا جائے تو یہ کتاب ثابت کرتی ہے کہ ہیرو بھی عام انسان ہوتے ہیں۔ وہ غلطیاں کرتے ہیں، خوف محسوس کرتے ہیں، محبت چاہتے ہیں اور اپنی شناخت تلاش کرتے ہیں۔ ملالہ کی کہانی صرف تعلیم کی جنگ لڑنے والی بچی کی نہیں بلکہ ایک ایسی لڑکی کی ہے جو خود کو پہچان رہی ہے۔
پشتون کلچر سے نکل کر برطانیہ میں گھلنا ملنا ملالہ کا ہی نہیں بلکہ ہر پاکستانی بچے کا مسئلہ ہے، جو گھر میں اسلامی ماحول دیکھتا ہے مگر باہر مختلف کلچر کا سامنا کرتا ہے۔ یوں وہ کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنے ہم عصروں کو خوش کرنے کے لیے ملالہ کی طرح مغربی اندازِ زندگی، لباس اور عادات اپنا لیتا ہے، حتیٰ کہ نشہ بھی کر لیتا ہے۔
ملالہ اپنی یونیورسٹی لائف، دوستیوں، امتحانات میں ناکامیوں، محبت اور تفریح کا ذکر کرتی ہے۔ وہ رومانوی گفتگو کو کھلے انداز میں بیان کرتی ہے جو ہمارے معاشرتی تناظر میں غیر معمولی ہے۔ لیکن یہ کتاب صرف ایک ہیرو کی نہیں بلکہ ایک انسان کی کہانی سناتی ہے۔ ملالہ نے پہلی بار اپنی ذہنی صحت پر بھی کھل کر لکھا ہے۔
وہ بیان کرتی ہے کہ شہرت، سکیورٹی، اور عوامی توقعات کے دباؤ نے کس طرح اسے الجھا کر رکھا۔ ذہنی صحت جیسے موضوعات پر گفتگو اب بھی ہمارے معاشروں میں ممنوع سمجھی جاتی ہے، مگر ملالہ نے اس دیوار کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔
جیسا کہ وہ کہتی ہے: “My new book, Finding My Way, is a messy, honest, and sometimes painfully funny memoir.”
"میں نے اپنی کہانی دوبارہ لکھی۔ وہ کہانی جو میں چاہتی تھی کہ کہی جائے، نہ وہ جو پہلے لکھی گئی تھی۔"
البتہ جہاں ملالہ اپنی رومانوی زندگی، شوہر عصر کے ساتھ ملاقاتوں اور لباس کا ذکر کرتی ہے، وہاں ایک عام پاکستانی قاری چونک جاتا ہے۔ وہ منظر یاد دلاتا ہے ان گھروں کا جہاں بچیوں کو عبایا اور سکارف پہنا کر اداروں میں بھیجا جاتا ہے، مگر وہ وہاں مغربی انداز اختیار کر لیتی ہیں تاکہ خود کو “برٹش” ثابت کر سکیں۔ اس بیان کو مغربی قاری تفریح یا یادداشت کے طور پر پڑھے گا، مگر مسلمان نوجوانوں کے لیے یہ طرزِ عمل قابل تقلید نہیں۔
“جب میں میز پر واپس آئی تو عصر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور ان کے چہرے پر ایک ایسی مسکراہٹ پھیل گئی جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ انہوں نے میری کرسی آگے کھینچی اور میرے کان کے قریب آ کر آہستہ سے کہا، ‘تم تو ایک سیکس بم ہو!’”
بحیثیت پاکستانی اور مسلم خاتون، میرے لیے ملالہ کی یہ کتاب متنازعہ ہے، مگر دوسرے ممالک میں اسے ایک ہیرو کی سچائی پر مبنی آپ بیتی کے طور پر دیکھا اور پسند کیا جائے گا۔ اس لیے کتاب مکمل پڑھنے تک کے لیے رخصت ہوتے ہیں۔