ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
چھوٹے بچوں کو کپڑے میں کیوں باندھتے ہیں؟ Home / بلاگز /

چھوٹے بچوں کو کپڑے میں کیوں باندھتے ہیں؟

سعدیہ بی بی - 30/08/2025 167
چھوٹے بچوں کو کپڑے میں کیوں باندھتے ہیں؟

سعدیہ بی بی

 

بچپن کی بہت سی یادیں، کہانیاں اور روایات میری زندگی کا ایک ایسا حصہ ہے، جو ہمیشہ میرے دل میں زندہ رہی ہیں۔ خاص طور پر جب میں پشتون معاشرے کو دیکھتی ہوں تو لگتا ہے کہ یہ روایات اور کہانیاں بزرگوں کی باتوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ انہی میں ایک روایت بہت عام ہے، نوزائیدہ بچوں کو باندھنے کی روایت جو بہت پرانی ہے۔ 

 

پشتون علاقوں جیسے  جنوبی وزیرستان، باجوڑ، سوات، دیر، مردان، چارسدہ، کرم اور بلوچستان کے پشتون علاقے، ان سب میں یہ روایت عام ہے ۔ یہ اُس وقت شروع ہوئی جب عورتیں کھیتوں اور گھریلوں  کاموں میں مصروف ہوتی تھیں اور بچے کو محفوظ رکھنے کے لیے کپڑے میں لپیٹ دیتی تھیں۔ اس سے بچہ نہ صرف ماں کے قریب رہتا بلکہ سکون اور تحفظ بھی محسوس کرتا۔ وقت کے ساتھ یہ ایک ضرورت سے بڑھ کر ایک روایتی پہچان بن گئی۔

 

یہ بہت پرانی بات ہے، میں تب بہت چھوٹی تھی۔ ایک دن میں نے اپنی دادی سے ایک سوال کیا تھا کہ چھوٹے بچوں کو کپڑے میں کیوں باندھتے ہیں؟ تب دادی نے مجھے بتایا کہ یہ صرف باندھنا نہیں ہوتا، یہ ہمارے پیار کا ایک طریقہ ہے۔ یہ پشتونوں کی ایک پرانی روایت ہے جو ہمارے بزرگوں سے ہمیں ملی ہے۔ روایت مطلب وہ عادت یا طریقہ جو پرانے وقتوں سے چلتا آ رہا ہو اور نسل در نسل لوگ اسے اپناتے رہیں۔

 

 تب دادی نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے نا تو وہ بہت نازک ہوتا ہے۔ جب ہم بچے کو کپڑے میں لپیٹ کر تھوڑا سا سختی سے باندھتے ہیں، تو وہ اپنے آپ کو ماں کے پیٹ میں محسوس کرتا ہے اور سکون میں آ جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنی حرکات سے خود کو ڈسٹرب نہیں کرپاتا، اس لیے وہ زیادہ دیر تک گہری نیند سوتا ہے۔ 

 

جب بچہ نیند میں ڈرتا اور رونے لگتا، تب باندھنے کی صورت میں بے وجہ کے ڈر سے بھی بچ جاتا ہے۔ جب بچہ ہاتھ پاؤں مار کر بہت زیادہ تھک جاتا ہے اور رونے لگتا ہے، تب اسے باندھ کر  سکون دیا جاتا ہے۔ باندھنے سے بچے کی ہڈیاں اور پاؤں سیدھے ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ ایک مخصوص پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔

  

پھردادی نے ایک پرانی بات یاد کی اور کہا کہ جب تمہاری ماں اس گھر میں نئی نئی دلہن بن کر آئی تھی نا، وہ شہری لڑکی تھی۔ اسے ہماری ان روایات کا پتہ نہیں تھا۔ وہ بچوں کو باندھنے کے خلاف تھی۔ لیکن جب تمہارا بھائی پیدا ہوا اور وہ رات بھر روتا رہتا تھا، تو ایک دن میں نے اسے باندھ دیا۔ وہ فوراً چپ ہو کر سو گیا۔ یہ دیکھ کر تمہاری ماں بہت حیران ہوئی تھی۔ اس کے بعد اس نے خود بھی یہ طریقہ سیکھا اور پھر اپنے بچوں کو باندھنے لگی تھی۔

 

پشتون اقوام میں یہ روایت نسل در نسل چلتی آئی ہے۔ دادی، نانی اور ماں سب یہی سکھاتی آئی ہیں کہ نوزائیدہ بچوں کو باندھنا ضروری ہے۔ یہ عمل عام طور پر پیدائش کے فورا بعد شروع کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر پشتون خواتین بچے کو پیدائش سے لے کر پہلے 40 دن تک ضرور باندھتی ہیں۔

 

 کچھ گھروں میں یہ مدت تین ماہ تک بڑھا دی جاتی ہے، لیکن پہلے دو ہفتے مکمل باندھنا فائدہ مند ہوتا ہے، دو ہفتے سے ایک مہینے تک صرف نیند کے وقت باندھنا بہتر ہوتا ہے اور ایک ماہ کے بعد بچے کو کھلا چھوڑنا زیادہ فائدہ مند ہے تاکہ وہ ہاتھ پاؤں ہلا کر اپنی جسمانی طاقت بڑھا سکے۔

 

باندھنے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب بچہ سونے والا ہو یا بہت زیادہ رو رہا ہو۔ نیند سے پہلے باندھنا بچوں کو سکون دیتا ہے اور وہ جلدی سوجاتا ہے۔ جب بچہ دودھ پی کرمطمئن ہو تو اس کو باندھ دینا چاہیے۔ لیکن جاگنے کے وقت یا دودھ پینے کے دوران بچے کو باندھنا مناسب نہیں، اس سے وہ بے سکون ہو سکتا ہے۔

 

 لیکن یاد رکھا جائے کہ بہت سختی سے نہ باندھا جائے، کیونکہ اس کی ہڈیوں اور جوڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سینے کے ارد گرد جگہ چھوڑی جائے تاکہ وہ آسانی سے سانس لے۔ ہمیشہ کمر کے بل سلایا جائے، پیٹ کے بل نہیں۔ زیادہ دیر تک باندھ کر نہ رکھا جائے۔

 

 باندھنے کا عمل پشتونوں کی ایک خوبصورت روایت ہے۔ یہ نہ صرف ماں کے پیار کو دکھاتا ہے بلکہ بچے کو سکون اور حفاظت بھی دیتا ہے۔ لیکن ہر روایت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم وقت کے ساتھ اسے سمجھیں، اس سے سیکھیں اور بہتر طریقے سے اپنائیں۔ 

 

اگر آپ کے گھرمیں کوئی بزرگ خاتون موجود ہیں، تو اُن سے ضرور پوچھیں کہ وہ اپنے بچوں کو کیسے سنبھالتی تھیں۔ ممکن ہے وہ صرف آپ کو ایک طریقہ نہ سکھائیں، بلکہ ایک پیار بھری کہانی بھی سنائیں۔ جیسی میری دادی نے سنائی تھی۔ اور شاید وہی کہانی ایک دن آپ اپنی اولاد کو سنا رہے ہوں۔