شمائلہ افریدی
ہمارے ٹی وی کے مشہور ٹاک شوز جو دن بھر چلتے رہتے ہیں، وہ ہمیں کیا پیغام دے رہے ہیں؟سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی نفرت انگیز خبریں عوام کے نفسیات پر کیسے اثر انداز ہورہی ہے؟ ٹی وی شوز پر سیاستدان جو ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرتے ہیں، ذاتی لڑائیاں اور تکرار دیکھتے ہیں، ایسا جیسے میدان جنگ ہو۔ لیکن کیا واقعی یہ جھگڑے عوام کے لیے فائدہ مند ہیں؟ یا یہ صرف نفرت مایوسی اور انتشار کا زینہ ہیں، جو ہمیں اور زیادہ الجھاتے جا رہے ہیں؟
ملک میں عوام کے دلوں میں جو نفرت اور گھٹن بڑھ رہی ہے اور نظام سے مایوسی بھی عام ہو چکی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ٹی وی پر دکھائے جانے والے تنقیدی اور الزام تراشی کے پروگرامز ہیں۔ خبروں کے چینلز ویب سائٹس سوشل میڈیا کا ایک جال پچھا ہوا لیکن کہی پر بھی سولوشن جرنلزم تعمیری صحافت کے حوالے سے کسی ماہر تجزیہ کار کا پروگرام دیکھنے کو نہیں ملتا جہاں تاریکی میں روشنی کا پیغام دیتا ہو ۔
تعمیری صحافت وہ صحافت ہوتی ہے، جو معاشرے کی ترقی مسائل کے حل اور مثبت تبدیلی کے لیے کام کرتی ہے۔ ان خبروں، تجزیوں، رپورٹس پر مبنی ہوتی ہیں، جو صرف مسائل دکھانے کے بجائے ان کے حل، آگاہی اور تعمیری تجاویز پیش کرتی ہیں ۔ ایسی صحافت حقائق کی مکمل رپورٹنگ اور اخلاقی اصولوں پر مبنی ہوتی ہے تاکہ سماج میں ترقی ہوں۔
تعمیری صحافت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ مسلے کے حوالے سے عوام کی رائے اور آواز کو بھی بیان کرتی ہے جس سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں تعمیری صحافت وہ روشنی ہے جو اندھیروں میں راستے دکھاتی ہے اختلافات کو کم کر کے اتحاد اور ترقی کی امید پیدا کرتی ہی۔
جب ہم روزانہ خبروں میں ایسی بحثیں دیکھتے ہیں، جو مسئلے کے بجائے صرف اختلافات کو بڑھاتی ہیں، تو اس کا ہماری سوچ اور جذبوں پر کیا اثر پڑتا ہے؟ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں تعمیری صحافت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ میڈیا صرف جھگڑے ہی نہ دکھائے بلکہ حل کی راہ بھی دکھائے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کے ہر فارم پر نا امیدی غم اور نفرت کی زبان بولی جاتی ہے۔ جو معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچارہی ہیں ۔ ایسے میں عوام کو وہ خبریں سننے کی شدید کمی محسوس ہورہی ہیں، جو نہ صرف مسائل کو اجاگر کریں بلکہ ان کے حل پر روشنی ڈالیں محبت، ہمدردی اور اتحاد کے جذبات کو جگائیں۔
تعمیری صحافت اس کمی کو پورا کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ یہ وہ صحافت ہے جو صرف مسائل بیان نہیں کرتی بلکہ ان کے حل اور مثبت تبدیلی کے امکانات پر بھی توجہ دیتی ہے۔ تعمیری صحافت نہ صرف عوام میں امید اور اعتماد پیدا کرتی ہے بلکہ انہیں ایک دوسرے کے قریب بھی لاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تعمیری صحافت کو وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جو ہونی چاہیے۔ نصاب میں اس کی تعلیم نہیں دی جاتی نہ ہی اس پر کوئی خصوصی سیمنارز یا تربیتی پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ صحافی اس کی سمجھ بوجھ حاصل کر سکیں اور مثبت خبریں بنا سکیں۔
ٹی وی چینلز پر زیادہ تر خبریں، تنازعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں تاکہ ناظرین کی توجہ حاصل کی جا سکے ہر چینلز سوشل میڈیا پیجس چینلز صرف اسی مقابلے میں رہتے ہیں کہ بریکنگ نیوز میں سب سے آگے ہو ۔ مگر اس کے نتیجے عوام کو اپنے ملک سے نفرت ہورہی ہیں ہر کوئی یہ کوشش کررہا ہے کہ کسی طرح اس ملک سے نکل سکے ۔ کوئی تجزیہ نگار یا ماہر مسائل کے حل کے بارے میں گہرائی سے بات نہیں کرتا نہ ہی ایسے پروگرامات کو کوریج دی جاتی ہیں، جس سے عوام کی الجھن اور مایوسی ختم ہوسکے اور ان میں امید پیدا ہوسکے۔
وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ تعمیری صحافت کو فروغ دی جائے۔ ہمارے میڈیا کو چاہیے کہ وہ صرف مسائل کی رپورٹنگ تک محدود نہ رہے بلکہ ان مسائل کے عملی حل مشترکہ اداروں کے کردار پر بھی روشنی ڈالے۔ میڈیا اور صحافیوں کی تربیت کے لیے خصوصی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ وہ نہ صرف خبروں کو بیان کریں بلکہ حل کی تلاش کیلئے تجاویز سے عوام کو درست راہ دکھائے۔
آخر میں کہنا چاہوں گی کہ پاکستان میں مسائل کی کمی نہیں لیکن ضرورت ہے ان کے حل پر روشنی ڈالنے اور ایک بہتر مستقبل کا خواب دکھانے کی جس سے عوام کو امید اور سہارا ملے۔ پاکستان میں میڈیا کی موجودہ صورتحال میں سنسنی خیزی اور غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ نے صحافت کے معیار کو کم کر دیا ہے جس کی وجہ سے عوام میں بڑھتی مایوسی کو تعمیری صحافت کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے۔
اگر میڈیا ادارے حقائق پر مبنی اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے حل پر مبنی خبریں پیش کریں تو نہ صرف عوام میں مثبت سوچ کو فروغ ملے گا بلکہ معاشرتی مسائل کے حل میں بھی مدد ملے گی۔ جب میڈیا ہمیں منفی خبروں کی بجائے مل کر چلنے کا پیغام ب دے تو ملک میں امن سکون اور خلوص بڑھ سکتا ہے۔