صدف سید
ہم سب کی زندگی میں کوئی نہ کوئی عرفیت یا پیارا نام ضرور ہوتا ہے۔ یہ نام کبھی بچپن میں گھر والے رکھتے ہیں، کبھی دوستوں کی شرارت یا محبت کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور کبھی ہم خود اپنے لیے منتخب کر لیتے ہیں۔ عرفیت یا نِک نیم بظاہر ایک عام سی چیز لگتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ہمارے احساسات، خود اعتمادی، اور شخصیت پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔
بچپن میں جب کوئی گھر کا فرد ہمیں پیار سے کسی نام سے پکارتا ہے تو ہمیں ایک تحفظ اور قربت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ نام ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ ہم کسی کے لیے خاص ہیں، اور یہ تعلق ہمارے دل میں ایک خوشگوار یاد کے طور پر محفوظ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی بچے کو گھر میں “گڑیا” یا “چیمپو” کہا جاتا ہے تو یہ نام اس کے ذہن میں مثبت جذبات اور محبت کے احساسات سے جُڑ جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نام اس کی شخصیت میں نرمی یا خوش مزاجی کا تاثر پیدا کر سکتے ہیں۔
لیکن سب عرفیتیں ہمیشہ مثبت اثر نہیں ڈالتیں۔ بعض اوقات دوست یا خاندان والے کسی جسمانی یا رویے کی خصوصیت کو مذاق میں عرفیت بنا دیتے ہیں۔ جیسے اگر کسی کو “موٹو” یا “لمبا” کہا جائے تو بظاہر یہ ہنسی مذاق لگتا ہے، مگر سننے والے کے لیے یہ بار بار کا تاثر ایک منفی خود اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ وہ شخص اپنے بارے میں اسی نظر سے سوچنے لگتا ہے، چاہے حقیقت اس سے مختلف ہو۔ یہ اثر اتنا گہرا ہو سکتا ہے کہ بڑے ہونے کے بعد بھی انسان اپنی شخصیت کو انہی الفاظ کے آئینے میں دیکھتا رہے۔
عرفیتیں اکثر ہماری خود اعتمادی کو مضبوط یا کمزور بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پیار بھرا اور حوصلہ افزا نِک نیم انسان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ خاص اور قیمتی ہے۔ اس کے برعکس، طنزیہ یا چبھنے والا نام وقت کے ساتھ انسان کی سوچ میں اس کا عکس چھوڑ دیتا ہے، جس سے وہ خود کو کم تر یا غیر اہم محسوس کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ بچوں اور بڑوں کے لیے عرفیت چنتے وقت ہمیں سوچ سمجھ کر الفاظ کا انتخاب کرنا چاہیے۔
عرفیتیں صرف ذاتی زندگی تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ یہ ہماری سماجی پہچان کا بھی حصہ بن جاتی ہیں۔ اکثر سکول، کالج یا آفس میں لوگ ایک دوسرے کو اصل نام کی بجائے عرفیت سے پکارتے ہیں۔ یہ عمل کبھی تعلقات کو مزید دوستانہ بنا دیتا ہے، تو کبھی غلط انتخاب کی وجہ سے کسی کو غیر آرام دہ محسوس کروا دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ جو لفظ ہم مزاح میں بول رہے ہیں، وہ دوسرے شخص کے دل پر کس طرح کا اثر ڈال رہا ہے۔
عرفیت کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ ہماری شخصیت میں تبدیلی بھی لا سکتی ہے۔ اگر کسی کو “بُک ورم” کہا جائے اور وہ پہلے سے کتابوں کا شوقین نہ بھی ہو، تو ممکن ہے کہ وقت کے ساتھ وہ اس کردار کو اپنانا شروع کر دے، صرف اس لیے کہ لوگ اسے اس نام سے پہچانتے ہیں۔ اسی طرح، مثبت عرفیتیں جیسے “چیمپیئن” یا “سمارٹ” انسان کو خود کو بہتر بنانے کی ترغیب دیتی ہیں، جبکہ منفی عرفیتیں بعض اوقات لوگوں کو خود پر یقین کھونے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ لوگ اپنی عرفیتوں کو اتنی محبت سے قبول کر لیتے ہیں کہ وہ ان کا اصل نام بن جاتی ہیں۔ مشہور شخصیات میں کئی ایسے لوگ ہیں جن کے نِک نیم ہی ان کی شناخت بن گئے، اور لوگ ان کے اصل نام جانتے تک نہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک عرفیت، چاہے وہ حادثاتی طور پر رکھی گئی ہو یا شعوری طور پر، کسی انسان کی پہچان کا مستقل حصہ بن سکتی ہے۔
عرفیتوں کا اثر اس بات پر بھی منحصر ہے کہ وہ کس لہجے میں اور کس نیت سے استعمال کی جاتی ہیں۔ ایک ہی لفظ اگر محبت اور احترام سے بولا جائے تو خوشی دیتا ہے، لیکن اگر طنز یا تضحیک کے انداز میں کہا جائے تو دل کو چوٹ پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا، عرفیتیں ہمیشہ ایسے انداز میں استعمال ہونی چاہئیں کہ وہ تعلقات کو مضبوط کریں، نہ کہ نقصان پہنچائیں۔
آخر میں، عرفیتیں ہماری زندگی کی چھوٹی مگر معنی خیز یادگار ہوتی ہیں۔ یہ نام، چاہے پیار بھرے ہوں یا شرارت میں رکھے گئے، ہمارے رویوں، سوچ اور تعلقات میں کسی نہ کسی طرح اپنی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کے لیے ایسے نام منتخب کریں جو نہ صرف خوشی اور محبت کا پیغام دیں بلکہ ان کی خود اعتمادی اور شخصیت کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کریں۔