حمیراعلیم
موت نہ صرف اٹل حقیقت ہے بلکہ یہ کبھی بھی کہیں بھی آ سکتی ہے۔ یہ نہ عمر دیکھتی ہے، نہ صحت۔اکثر ہم سنتے ہیں کہ کوئی بالکل جوان یا صحت مند شخص اچانک فوت ہو گیا۔ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔لیکن اہل خانہ کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ بچھڑنے والے کے غم سے تو دوچار ہوتے ہیں اور انہیں ایسے مسائل سے پالا پڑتا ہے جن کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔
بالخصوص جب مرد حضرات جو عموماً گھر کے مالی، قانونی اور سرکاری معاملات کے ذمہ دار ہوتے ہیں، جب وہ اچانک رخصت ہو جاتے ہیں تو بیوی، بچوں یا والدین کو ایک ایسے بھٹکے ہوئے سفر پر ڈال دیتے ہیں جہاں ہر موڑ پر پریشانی اور غیر یقینی حالات ان کا انتظار کرتے ہیں۔
2023 میں میرے بیٹے کے دوست کے والد کا انتقال ہوا جو ریٹائرڈ سرکاری آفیسر تھے۔ان کی دو شادیوں کی وجہ سے ان کی بیوہ نے خاصی مشکلات سہی اور تقریبا تیرہ ماہ بعد پنشن پا سکیں۔آج جب خود اس سچویشن کا سامنا کر رہی ہوں تو سوچا دوسروں کو چند مشورے دوں تاکہ ان کے اہل خانہ ان مصائب سے دوچار نہ ہوں۔
یہ آرٹیکل خاص طور پر گورنمنٹ ایمپلائیز اور ایسے تمام مرد حضرات کے لیے ہے جن کے معاملات میں کاغذی کارروائی، فائلیں، سرکاری کاغذات، پنشن یا پراویڈنٹ فنڈ جیسے معاملات شامل ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ ہم سب اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اپنے گھر والوں کو کم از کم اس اذیت سے بچا سکیں جو ہماری غیر موجودگی کے بعد پیدا ہو سکتی ہے۔
سربراہ خانہ اور کفیل کی اچانک موت زندگی میں جذباتی و عملی خلا پیدا کرتی ہے۔مرد حضرات عموما گھر کی خواتین کو بزنس، جاب، آفس کے معاملات اور پیپپر ورک سے لاعلم ہی رکھتے ہیں۔وجہ شاید انہیں پریشانی سے بچانا ہو۔لیکن اکثر خواتین اپنے شوہر کی اہم دستاویزات، قرض، بزنس، جاب، بینک اکاؤنٹ، انشورنس، نادرا کے معاملات سے واقف نہیں ہوتیں۔لہذا نہیں جانتیں کہ شوہر کی وفات کے بعد کیا کرنا ہے۔ یہ ایک خطرناک غفلت ہے۔ان معلومات کی کمی ان کے لیے ایک مسلسل ذہنی دباؤ کا باعث بن جاتی ہے۔
بیوی یا بچوں کو بینک اکاؤنٹس کی تعداد، جگہ اور پاس ورڈز کا علم نہ ہونا۔انشورنس پالیسیز، گاڑی یا جائیداد کی رجسٹری، اور پنشن ڈاکومنٹس کی جگہ معلوم نہ ہونا۔کسی قرض یا ادھار کا علم نہ ہونا، جس کا مطالبہ بعد میں آ کر ورثاء سے کیا جائے۔یہ لاعلمی بعد میں اہل خانہ کو ایسے بحران میں ڈال دیتی ہے جہاں نہ صرف مالی نقصان ہوتا ہے بلکہ عزت اور اعتماد کا بھی امتحان ہوتا ہے۔
سرکاری ملازمین کے معاملات میں کئی اضافی مراحل شامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر:پنشن اور گریجویٹی کلیم کرنا،پراویڈنٹ فنڈ کا حصول،GP فنڈ یا CP فنڈ کی رقم کلیئرنس،سروس سرٹیفکیٹس اور ملازمت ختم ہونے کی تصدیق،نادرا سے وراثتی سرٹیفکیٹ بنوانا،متعلقہ محکمہ یا اکاؤنٹنٹ جنرل آفس سے رابطہ کرنا۔
یہ تمام مراحل صرف اس صورت میں جلد نمٹ سکتے ہیں جب گھر والوں کو پہلے سے معلوم ہو کہ کون سے کاغذات کہاں رکھے ہیں اور کس سے رجوع کرنا ہے۔ ورنہ یہ ایک ایسا دائرہ بن جاتا ہے جس میں مہینوں بلکہ سالوں لگ جاتے ہیں۔
وفات کے بعد پہلا بڑا مرحلہ وفات کا اندراج اور پھر وراثتی سرٹیفکیٹ کا حصول ہوتا ہے۔ نادرا میں یہ عمل بظاہر آسان لگتا ہے مگر حقیقت میں یہ کہ کئی کاغذات، شناختی کارڈز بچوں کی قانونی دستاویزات، شرعی فتوی ، جائیداد کی تفصیلات اور گواہوں کی موجودگی پر منحصر ہوتا ہے۔اگر شناختی کارڈ کی تجدید یا درستگی پہلے نہیں کرائی گئی تو معاملات مزید سست ہو جاتے ہیں۔اگر گھر والے نہیں جانتے کہ مرحوم کے بینک اکاؤنٹس یا جائیداد کہاں کہاں ہیں تو وراثتی سرٹیفکیٹ مکمل نہیں ہو پاتا۔
اس لیے اشد ضروری ہے کہ مرد ایک اہم معلومات کی فائل تیار کریں۔جس میں درج ذیل معلومات لکھ کر محفوظ کریں۔ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس کی کاپیاں۔سروس بک، تقرری اور ریٹائرمنٹ کے کاغذات۔بینک اکاؤنٹس کے نمبر اور برانچ کے نام۔ آن لائن بینکنگ کے پاس ورڈز (محفوظ انداز میں لکھے جائیں)۔
انشورنس پالیسی اور پراویڈنٹ فنڈ کی تفصیلات۔جائیداد، اسلحہ اور گاڑیوں کے کاغذات۔ قرض اور مالی ذمہ داریوں کی فہرست۔اگر کسی پر قرض یا کسی سے رقم لی گئی ہے تو اس کی مکمل تفصیل اور واپسی کا منصوبہ لکھیں۔ اس طرح ورثاء اچانک کسی مطالبے یا دعوے سے بے خبر نہیں رہیں گے۔ایسے قریبی دوست یا رشتہ دار کے نمبر لکھیں جو ان معاملات میں رہنمائی کر سکیں، خاص طور پر سرکاری دفاتر میں تجربہ رکھنے والے۔
کم از کم اپنی بیوی کو یہ ضرور بتائیں کہ کون سے کاغذات کہاں ہیں۔کس محکمے میں جا کر کلیم کرنا ہے۔کس شخص یا دفتر سے مدد لی جا سکتی ہے۔اسلام میں بھی ذمہ داریوں کو واضح کرنے اور امانت ادا کرنے کی سخت تاکید ہے۔
" قرآن میں فرمایا گیا بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل تک پہنچاؤ۔" النساء: 58
اہل خانہ کو معلومات دینا اور معاملات واضح رکھنا ایک طرح سے امانت ادا کرنا ہے۔ کیونکہ ورثاء کا حق ہے کہ وہ اپنے قانونی اور مالی حقوق بروقت حاصل کر سکیں۔
موت کے بعد گھر والے پہلے ہی جذباتی طور پر صدمے میں ہوتے ہیں۔ اگر اس وقت انہیں سرکاری دفاتر کے چکر کاٹنے پڑیں، نادرا میں قطاروں میں کھڑا ہونا پڑے، یا بینک اکاؤنٹس اور پنشن کلیم کے لیے مہینوں بھاگ دوڑ کرنی پڑےتو یہ ان کے لیے ایک اور کرب ناک آزمائش بن جاتی ہے۔
مرد حضرات کو یہ سوچنا چاہیے کہ آج جو کچھ ہمارے کنٹرول میں ہے وہ کل ہمارے نہ رہنے پر ہمارے پیاروں کے لیے آسانی یا مشکل کا سبب بن سکتا ہے۔ اپنی بیوی، بچوں یا والدین کو اپنے معاملات سے باخبر رکھنا نہ صرف عقلمندی ہے بلکہ اخلاقی، معاشرتی اور شرعی ذمہ داری بھی ہے۔
اپنی زندگی میں معاملات شفاف رکھنا، کاغذات منظم کرنا اور اہل خانہ کو آگاہ رکھنا، آپ کے بعد ان کے لیے سب سے بڑا سہارا ہے۔یہ قدم آپ کے پیاروں کو قانونی، مالی اور ذہنی دباؤ سے بچا سکتا ہے۔گورنمنٹ ایمپلائیز خصوصاً اس بات کا اہتمام کریں کیونکہ ان کے کاغذی معاملات عام شہریوں کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ اور وقت طلب ہوتے ہیں۔