ایزل خان
پاکستان ہر سال قدرتی آفات کے خطرات سے دوچار ہے، ہر سال برسات کے موسم میں کئی علاقے خصوصا سوات،مانسہرہ، جیسے شمالی اور پہاڑی علاقوں سمیت خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب ان آفات کی زد میں آتے ہے،ہر سال بار بار سیلاب آنے سے نہ صرف قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا ہے، بلکہ زرعی زمینیں،مکانات،سڑکیں اور بنیادی ڈھانچہ بھی تباہ ہوجاتی ہیں۔
مجھ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم ہر سال انہی غلطیوں کو بار بار دہراتے ہے صرف بروقت اقدامات نا ہونے کی وجہ سے ہم اتنا نقصان اٹھاتے ہے کہ اس نقصان کو پورا کرنے کے لئے کئی سال لگ جاتے ہے مجھ سمیت تمام عوام کا یہ سوال ہے کہ ہم بار بار ناکام کیوں ہے؟
کیا ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا مطلب صرف آفات کے بعد امدادی کارروائی کرنا ہے؟ ہمارے ادارے ہمارا نظام کمزور ہے، اس لیے ہم ہر سال صرف لاشیں اٹھاتے ہے،بجائے اس کے کہ بروقت عوام کو آگاہ کیا جائے۔ دوسری بات یہ کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا مطلب آفات کے بعد امدادی کارروائی کرنا نہیں ہے بلکہ آفات سے پہلے،دوران اور آفات کے بعد ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی بنانے کا نام ہے۔ لیکن پاکستان میں بد قسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اکثر صرف امدادی کام تک محدود رہتی ہے،جب سیلاب آتا ہے تو اس وقت حکومت اور ادارے فوری طور پر متاثرین تک خوراک ،پانی،اور عارضی رہائش پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی اس وقت پہنچتے ہے جب عوام پر ہر قسم حالات گزر جاتے ہے۔
آدھی فیملیز ختم،لوگ،زمینیں، زراعت تباہ سب کچھ نیست ونابود ہوچکا ہوتا ہے،اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیلاب آنے سے پہلے عوام کو خبردار کیا جائیں تاکہ عوام بر وقت محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں لیکن یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔اگر ہم گزشتہ 24 گھنٹوں کی بات کریں شمال مغربی پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے کتنا نقصان ہوا اگر انسان میں ایک فیصد انسانیت بھی شامل ہو تو اپنا ضمیر انسان کو ملامت کرتا کہ کیا ہم اپنے عہدے کا استعمال صحیح کرتے ہے یا نہیں؟ کیا ہم انسانوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہے یا ہر سال کی طرح لاشیں اٹھاتے ہے؟
صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے کم از کم 307 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 157 افراد صرف ضلع بونیر کے ہیں، ایک حکومتی امدادی ہیلی کاپٹر خراب موسم کے باعث گر کر تباہ ہوگیا، جس میں 5 ریکور ٹیم کے ارکان جاں بحق ہوگئے۔
ملک بھر میں جون 26 سے اب تک تقریبا 556 افراد بارشوں سے متعلق حادثات میں ہلاک ہوچکے ہے جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے.اس کے ساتھ گلگت بلتستان،آزاد جموں وکشمیر ،مانسہرہ،سوات،بٹگرام،خیبرپختونخوا سمیت دیگر علاقوں میں سیلاب سے شدید نقصان ہوا ہے. نقصان کس کا ہوا؟ اگر بروقت اقدامات کر رہے ہوتے تو موسمیات کی خرابی کے وجہ ریکور ٹیم بچ جاتی۔ عوام وقت پر محفوظ مقامات منتقل ہوجاتے،لیکن پاکستان میں ہر سال کے طرح ایک بار پھر بارشوں اور گلیشئیر پگھلنے سے پیدا ہونے والے تباہ کن سیلاب کا شکار ہوگیا،مگر بدقسمتی سے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا نظام ابھی تک اس تباہی کو روکنے میں یا کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا مختلف علاقوں میں شدید سیلاب اور لینڈ سلائیڈز نے اس حقیقت کو ایک بار پھر بے نقاب کیا کہ ہم آج کے جدید دور میں بھی پیشگی منصوبہ بندی کے بجاے صرف آفات کے بعد مدد فراہم کرتے ہے سب کچھ تباہ ہوگیا سڑکیں،پل،اور رابطہ راستے بہہ گئے،لوگ کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہوگئے سوال یہ ہے کہ واقعی یہ قدرتی آفات کی وجہ سے اتنا نقصان ہوا یا انتظامی ناکامی کی وجہ سے؟
جواب یہ ہے کہ یہ قدرتی آفات نہیں بلکہ انتظامی کمزوری اور نظامی ناکامی کی کہانی ہے کیونکہ ہمارے ادارے وقت سے پہلے عوام کو خبردار کرنے مقامی کمیونیٹیز کو محفوظ مقامات تک منتقل کرنے اور بنیادی ڈھانچے بنانے میں موثر اور کامیاب کردار ادا نہیں کر پا رہے،محکمہ موسمیات کے پاس جدید پیش گوئی کا نظام تو موجود ہے لیکن یہ بروقت عوام تک نہیں پہنچ پاتے،کیوں؟ کیونکہ یہ ضلعی انتظامیہ،موسمیاتی اداروں، اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کے درمیان رابطے کا فقدان ہے جس کے وجہ صورتحال مزید خراب ہوتے جا رہا ہے۔
دوسری بات یہ کہ عوامی سطح پر بھی آگاہی کا شدید فقدان موجود ہے۔ ہر دوسرا بندہ سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے لیکن تماشہ دیکھنے کے لئے ، عوام کو یہ نہیں معلوم کہ ہنگامی صورتحال میں فورا کہا جانا چاہیے؟ اور اپنے مال مویشی یا بچوں کو کیسے محفوظ رکھنا ہے؟ سوات، مانسہرہ جیسے علاقے حالیہ برسوں میں بار بار سیلاب کے وجہ سے متاثر ہوئے لیکن مستقل حل کے طرف کوئی بھی سنجیدہ توجہ نہیں دیتا کیوں؟ میرے خیال میں ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ بروقت وارننگ سسٹم مقامی زبانوں میں ہر گاؤں اور بستی تک پہنچایا جائے،اداروں کے درمیان ہم آہنگی قائم کیا جائے عوام اور متاثرہ لوگوں کو سکولوں ،کالجوں اور کمیونٹی سینٹرز کے ذریعے دی جائے کہ آفات کی صورت میں فوری رد عمل کیسے دینا ہے۔
صرف سیلاب کے بعد راشن یا وقتی امداد دینا کافی نہیں ہے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو روزگار کے مواقع،مکانات کے دوبارہ تعمیر کے لئے مستقل فنڈز فراہم کیا جائیں پہاڑی علاقوں میں جنگلات کے تحفظ جیسے اقدامات ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کر سکتے ہے اگر یہ اقدامات حکومت اور اداروں کے طرف سے بروقت کیا جائے تو ہر سال دہرانے والے ان سانحات سے بڑی حد تک بچا جا سکتا ہے ورنہ ہم صرف نقصان گننے کے لئے رہ جائیں گے اور آنے والے نسلوں کو بھی اسی خطرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔
یہ وقت صرف افسوس کرنے کا نہیں ہے بلکہ سنجیدگی سے سوچنے کا ہے کہ کیا ہم ہمیشہ سیلاب آنے کا انتظار کرتے رہے گے کہ آئے اور جانیں ضائع ہو جائے؟ گھر بار بہہ جائیں ؟اور پھر وقتی امداد بانٹ کر مطمئن ہوں جائیں؟ یا پھر ایک نظام بنائیں گے جو پہلے سے عوام کو آگاہ کریں،لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کریں،اور بنیادی ڈھانچے کو اتنا مضبوط بنائیں گے کہ قدرتی آفات انسانی سانحات میں نہ بدل سکیں؟ اس کا جواب آج دینا ہوگا،کیونکہ کل بہت دیر ہو جائے گی۔