پی ٹی آئی احتجاج: وہ واقعہ جس نے پشتونوں کے کامیاب کاروباری ہونے کا راز فاش کر دیا
اللہ ہی جانے! ایسے زرخیز دماغ والے پاکستانی، باالخصوص پشتون، دو ہاتھیوں کی لڑائی میں اپنا نقصان کر کے بے وقوفی کا ثبوت کیوں دے رہے ہیں؟
پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں کسی یونین کا احتجاج ہو یا سیاسی پارٹی کا کبھی پرامن نہیں ہوتا۔ احتجاج کرنے والے توڑ پھوڑ کرتے ہیں تو حکومتی ادارے واٹر کینن کا استعمال، شیلنگ، یا پھر ہوائی فائرنگ کر کے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بہرصورت نقصان سراسر عوام کا ہی ہوتا ہے خواہ جانی ہو یا مالی۔
احتجاج اگر سیاسی پارٹیوں کا ہو تو حکومت کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ اسے ناکام بنائے۔ 2009 میں جب زرداری صاحب کی حکومت تھی تو پی ایم ایل این نے احتجاج کی کال دی اور قافلہ لاہور سے اسلام آباد کی جانب عازم سفر ہوا ۔زرداری صاحب نے سارے ملک کی شاہراہیں کنٹینرز لگا کر بند کرا دیں اور مذاکرات میں اتنی پھرتی دکھائی کہ احتجاج شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ میں بذریعہ ٹرین لاہور جا رہی تھی؛ راستے میں ہر جگہ کنٹینر کھڑے دیکھے تو سوچا شاید اندرون شہر ایسا کچھ نہ ہو لیکن اس قدر سختی تھی کہ ڈیفنس جانے کی بجائے ہمیں شادباغ کے علاقے میں ہی رات قیام کرنا پڑا۔
دوسرا احتجاج جو یادگار تھا پی ٹی آئی کا تھا جس میں انہوں نے مہینوں ڈی چوک میں قیام کیا۔ اب ایک بار پھر انہوں نے مطالبات پورے ہونے تک ڈی چوک میں دھرنے کی دھمکی دی تو حکومتی مشینری حرکت میں آ گئی۔ اس بار ایک نہیں کئی کنٹینرز لگا کر ہر شاہراہ بلاک کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ ناکام اس لیے کہ لوگ پھر بھی اسلام آباد پہنچ گئے جس پر فوج طلب کر کے حکم دیا گیا کہ انتشار پھیلانے والوں کو بلادریغ شوٹ کر دیں۔
یہ بھی پڑھیں: کرم: اموات 110؛ ادویات و اشیائے ضروریہ کی قلت سے عوام کی مشکلات میں اضافہ
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ فوج، پولیس، یا پھر عوام میں سے کس نے پہل کی یہ تو وہاں موجود لوگ ہی جانتے ہوں گے، ہم جیسے گھر بیٹھے لوگوں کے لیے میڈیا ہی واحد ذریعہ تھا جو حالات سے باخبر رکھے ہوئے تھا۔ وہ بھی دو دھڑوں میں بٹ گیا؛ چند چینلز، اخبارات اور سائٹس حکومت کی طرف اور چند پی ٹی آئی کے حق میں رپورٹنگ کر رہے تھے لہذا خبریں کچھ یوں تھیں: "رینجرز اور فوج نے 601 بندے زخمی کر دئیے 40 ہلاک”، "مشتعل انتشاریوں کے پاس جدید اسلحہ تھا جس سے انہوں نے رینجرز اور پولیس کے کئی بندے شہید کر دیئے لیکن فورسز نے پھر بھی اسلحے کا استعمال نہیں کیا۔” دونوں جانب سے اپنے اپنے زخمی اور شہید پیش کیے گئے اور دونوں جانب سے ہی شر و فساد میں پہل کی تردید کی گئی۔
اب اللہ جانے یہ کوئی خلائی مخلوق تھی؛ دہشت گرد تھے یا کوئی اور جس نے وہ سب کچھ کیا جو سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دکھایا جا رہا تھا۔ فورسز کے اہلکار ایک نماز پڑھتے شخص کو کنٹینر سے اٹھا کر نیچے پھینکتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کی گردن ٹوٹ جاتی ہے اور وہ جان بحق ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک اور ویڈیوز میں وہ شخص زندہ چلتا پھرتا دکھایا گیا۔ یہ اے آئی کا کمال ہے یا کوئی اور کرشمہ، میرے لیے میڈیا کچھ زیادہ قابل اعتبار نہیں رہا اس لیے اب انتظار کسی ایسے شخص کا ہے جو اس احتجاج میں شریک تھا اور وہ آنکھوں دیکھا حال بیان کرے۔
حزب مخالف کے احتجاج و دھرنے معمول کی بات ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن اگر حکومت شہروں کو بند کرنے کی بجائے پی ٹی آئی کو آرام سے اسلام آباد آنے دیتی اور پھر مذاکرات کے ذریعے افہام و تفہیم سے مسئلے کا حل نکالا جاتا تو شاید یہ جانی و مالی نقصان نہ ہوتا؛ اور تعلیمی ادارے، دفاتر، اور مارکیٹیں بند رہنے سے وقت اور پیسے کا جو ضیاع ہوا وہ نہ ہوتا۔
وزیراعظم صاحب جو یہ فرما رہے ہیں کہ پی ٹی آئی اس نقصان کی ذمہ دار اور جوابدہ ہے تو وہ شاید بھول رہے ہیں کہ امن و امان قائم رکھنا اور ہر شہری کے جان و مال کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ عوام کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں؛ اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سرکاری املاک ہوں یا نجی دونوں ہی ہمارے پیسوں سے بنتیں، اور ہماری ملکیت ہوتی ہیں۔ اگر ہم انہیں تباہ کریں گے تو اپنا ہی نقصان کریں گے اس لیے حالات خواہ کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں، سرکاری دفاتر، نجی گاڑیوں یا عمارات کو جلانے، یا پھر توڑنے پھوڑ، اور دھینگا مشتی کرنے کی بجائے گفت و شنید سے مسائل حل کرنے کی سعی کیا کریں کہ جنگ سے سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
خان رہا ہوئے، نہیں ہوئے، ان کی مشکلات کم ہوئیں یا زیادہ یہ الگ بات لیکن اس سارے سیناریو میں ایک واقعہ ایسا بھی تھا جس نے پشتونوں کے کامیاب کاروباری ہونے کا راز بھی فاش کر دیا۔ راولپنڈی کی ایک شاہراہ پر کنٹینرز کے ساتھ ایک ڈیڑھ میٹر اونچی دیوار تھی چند پشتونوں نے جس کے دونوں اطراف لکڑی کے تختے لگا کر موٹرسائیکل سواروں کو اِدھر سے اُدھر جانے کا موقع فراہم کیا اور فی بائیک پچاس روپے کمائے۔ ایسے ہی چند مقامات پر ”بائیکیاز” یعنی موٹرسائیل سواروں نے کنٹینرز کے دونوں اطراف کھڑے ہو کر ایسی سروسز دیں کہ لوگ ایک طرف سے کنٹینر پر چڑھ کر دوسری طرف پہنچتے اور مخالف سمت کے ”بائیکیاز” انہیں منزل مقصود تک پہنچاتے رہے۔ اللہ ہی جانے! ایسے زرخیز دماغ والے پاکستانی، باالخصوص پشتون، دو ہاتھیوں کی لڑائی میں اپنا نقصان کر کے بے وقوفی کا ثبوت کیوں دے رہے ہیں؟
اور، بصد احترام، حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ملک کے سالہاسال سے دہشت کے شکار علاقوں میں ”جو” امن بحال نہیں کر سکے "انہوں” نے راتوں رات ایسا چمتکار کیا کہ اسلام آباد کلیئر کروا لیا۔ پس ثابت ہوا حکومت کی دم پر پاوں آئے تو چند گھنٹوں میں ملک کے حالات درست ہو سکتے ہیں لیکن عوام کے لیے کچھ بھی نہیں، سوائے بیانات کے!