ٹی این این اردو - TNN URDU Logo
پڑھی لکھی خواتین بھی تشدد کا شکار، تو عام عورت کا کیا حال ہوگا؟ Home / بلاگز /

پڑھی لکھی خواتین بھی تشدد کا شکار، تو عام عورت کا کیا حال ہوگا؟

سپر ایڈمن - 30/07/2025 115
پڑھی لکھی خواتین بھی تشدد کا شکار، تو عام عورت کا کیا حال ہوگا؟

حمیرا علیم

 

نکاح ایک اہم اور مقدس فریضہ ہے۔اگر لائف پارٹنر اچھا مل جائے تو زندگی سنور جاتی ہے لیکن اگر وہ برا ہو تو زندگی جہنم بن جاتی ہے۔پاکستان میں یہ رشتہ اکثر دکھ، اذیت اور تشدد کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ خاص طور پر خواتین، چاہے وہ پڑھی لکھی اور خود مختار ہوں یا کم تعلیم یافتہ اور گھریلو اس اذیت کا نشانہ بنتی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ تشدد کا نشانہ صرف خواتین ہی بنتی ہیں بہت سے مرد بھی نارسسٹ خواتین کا ذہنی و جسمانی تشدد سہتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں اکثر کیسیز میں خواتین ہی گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔خواہ وہ ایک ان پڑھ یا کم پڑھی لکھی ہاؤس ہیلپ ہو یا جیسمین منظور ، منزہ سہام، عظمی بخاری اور کشمالہ طارق  جیسی پڑھی لکھی، خودکفیل، بااثر ورکنگ اور ایلفا وویمن۔

 

     فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ہمت کر کے ایک طویل قانونی جنگ لڑی اور ایک تکلیف دہ رشتے کو ختم کر دیا۔ لیکن یہ راستہ آسان نہیں ہوتا ۔    خصوصا جب عدالتی نظام بھی کرپٹ ہو تو لوگ اپنے جائز حق کے حصول کے لیے بھی سالوں تک جنگ لڑتے ہیں ۔ جب ایسی معاشرتی، تعلیمی اور  قانونی شعور رکھنے والی خواتین کو انصاف کے لیے اتنی جدوجہد کرنی پڑتی ہے تو تصور کیجیے کہ ایک عام، ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ، گھریلو خاتون کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا۔ اس کی آواز اکثر دب جاتی ہے، نہ سنی جاتی ہے اور نہ ہی سمجھی جاتی ہے۔

 

   شادی صرف دو اشخاص کا ہی نہیں دو خاندانوں، ذہنوں اور شخصیات کا بندھن ہوتا ہے۔اکثر شادیاں صرف اس لیے  ناکام ہو جاتی ہیں کہ فریقین ایک دوسرے کی نفسیاتی کیفیت، سوچنے سمجھنے کے انداز یا ماضی سے واقف نہیں ہوتے۔ نتیجہ ذہنی دباؤ، بدسلوکی، بدگمانی، تشدد، اور انجام کار طلاق یا ساری عمر کا عذاب۔

   

ویسے تو شادی ایک جوا ہی ہے۔لوگ جوائنٹ فیملی میں عشروں تک ساتھ رہنے والے کزنز سے بھی واقف نہیں ہوتے اورشادی کے بعد سسرال اور  کزن کی اصلیت سامنے آتی ہے۔لیکن پھر بھی انسان کو شادی سے پہلے چند اقدامات کرنے چاہیے۔کیونکہ جب ہم کسی بھی ادارے میں کسی کو جاب دیتے ہیں تو جسمانی، نفسیاتی، تعلیمی ٹیسٹ لیتے ہیں۔پھر جس شخص کو اپنی زندگی کا ساتھی بنانے کے عہدے پر فائز کرنے چلے ہیں اس کو چیک کیوں نہ کیا جائے؟

 

خاندان کے بزرگوں کی  رضامندی اشد ضروری ہے کیونکہ وہ اپنے تجربے کی بناء پر انسانوں کو پرکھ سکتے ہیں۔لڑکا ہو یا لڑکی ان کی اچھی طرح سے چھان بین کروائی جائے محلے داروں سے رائے لی جائے۔پہلی شادی ختم ہونے کی تفصیل طلب کی جائے۔

 

اگر پہلے بھی تشدد یا ذہنی بیماری کی شکایات سامنے آئیں تھیں تو یہ ایک بڑا "ریڈ فلیگ" ہے۔اگر کوئی فرد پہلے سے ڈپریشن، بائی پولر، شیزوفرینیا، یا کسی بھی نفسیاتی بیماری کس علاج کروا رہا  ہے تو اس کے متعلق آگاہی ہونی چاہیے۔ اہل خانہ کی موجودگی میں بار بار ملاقاتیں کی جائیں تاکہ ایک دوسرے کے ذہنی رجحانات کو سمجھا جا سکے۔

 

نفسیاتی تشدد  کی علامات اکثر ابتدائی ملاقاتوں میں ظاہر ہو جاتی  ہیں جیسے کہ حد سے زیادہ کنٹرول کرنا،بار بار شک کرنا،بات بات پر غصہ یا چیخنا،دوسروں کی تذلیل کرنا،ہمدردی یا احساسِ جرم کے جذبات نہ ہونا ،احساس  کی کمی۔ اگر آپ والدین کے دباؤ میں آ کر شادی کر رہے ہیں تو دوسرے فریق کو بتا دیجئے تاکہ بعد میں مسائل نہ ہوں۔کوئی رشتہ قائم کر کے اسے توڑنا دانشمندی نہیں۔

 

اس لیے  اگر آپ کسی کو پسند کرتے ہیں تواسی سے شادی کے لیے ہر ممکن کوشش کیجئے کسی اور کی زندگی تباہ نہ کیجئے۔پری میرج کاؤنسلنگ لیجئے۔ماہر نفسیات دونوں فریقین کو چند سیشنز کے دوران ان کی شخصیت، ذہنی رجحانات، ترجیحات اور برداشت کی سطح کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

 

میڈیکل ٹیسٹ (خاص طور پر بلڈ اور ایچ آئی وی/AIDS)      پاکستان میں نکاح سے پہلے کا کوئی باقاعدہ قانون موجود نہیں۔ جبکہ دنیا کے کئی ممالک میں یہ لازمی ہے تاکہ بعد میں جسمانی یا جینیاتی بیماریوں سے بچا جا سکے۔ موجودہ دور کے معاشرتی اورنفسیاتی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف جسمانی تندرستی کا جائزہ کافی نہیں۔

          

اسسمنٹ (Psychological Screening) وقت آ گیا ہے کہ نکاح سے پہلے سائیکالوجیکل کو بھی لازمی قرار دیا جائے۔ اس سے اندازہ ہو سکے گا کہ فریقین کا ذہنی رجحان، برداشت، غصہ، ماضی کی ذہنی بیماریوں یا ٹراما کا کوئی ریکارڈ موجود ہے یا نہیں۔

 

   صرف جانچ ہی کافی نہیں، بلکہ سرکاری ہسپتالوں اور میرج رجسٹریشن مراکز پر میرج کونسلنگ کی سہولت بھی فراہم کی جانی چاہیے۔ شادی سے پہلے اور بعد میں  بھی میاں بیوی دونوں کے لیے پیشہ ورانہ رہنمائی / کونسلنگ کی سہولت دستیاب ہو۔تاکہ اختلافات کا حل طلاق نہ ہو بلکہ سمجھداری اور رہنمائی کے ذریعے نکالا جا سکے۔

      قانون ساز ادارے اس سنجیدہ مسئلے پر توجہ دیں۔

 

 درج ذیل اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں:  حکومت پاکستان نکاح رجسٹریشن کے لیے سائیکالوجیکل کلیرنس سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دے۔ہر ضلع میں سرکاری سطح پر قائم کئے جائیں۔میڈیکل بورڈ میں کم از کم ایک ماہر نفسیات شامل کیا جائے جو پری میرج چیک اپ کا حصہ ہو۔ میڈیا، مساجد اور تعلیمی ادارے قانونی اور شرعی نقطہ نظر سے شادی سے پہلے اور بعد کی زندگی کے لیے تیاری کروائیں ۔علماء کرام اور 

نکاح خوان حضرات کو بھی اس بارے میں تربیت دی جائے تاکہ وہ نکاح سے پہلے مشاورت کو لازمی قرار دیں۔

 

     شادی ایک مقدس بندھن ہے۔ لیکن اسے مضبوط بنانے کے لیے صرف رشتہ داریاں یا معاشی مفادات کافی نہیں، ذہنی ہم آہنگی، برداشت، اور جذباتی توازن بھی ضروری ہے۔ اگر ہم صحت مند معاشرہ چاہتے ہیں تو نکاح کو ایک باقاعدہ ذمہ دارانہ انسٹیٹیوٹ بنانا ہوگا نہ کہ ایک اندھا دھند جذباتی فیصلہ۔ اگر تعلیم یافتہ، باشعور خواتین بھی غلط فیصلوں کے باعث تشدد کا نشانہ بن سکتی ہیں، تو عام خواتین کے لیے یہ سفر کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

 

        ہمیں شادی کو ایک سائنسی، جذباتی اور سماجی فیصلہ سمجھ کر اس کے تقاضوں کو نئے انداز سے دیکھنا ہو گا۔ یہی تبدیلی ہمیں ایک بہتر، محفوظ اور خوشحال معاشرے کی طرف لے جا سکتی ہے۔