صحتعوام کی آواز

بٹ خیلہ میں باؤلے کتوں کے حملے سے 11 بچے زخمی، ویکسین کی عدم دستیابی پر عوام میں تشویش

محمد انس

بٹ خیلہ میں باؤلے کتوں کے حملے سے 11 بچوں کے زخمی ہونے کے واقعے نے علاقے میں تشویش پھیل گئی ہے۔ بچوں کے زخمی ہونے کے بعد، جب والدین انہیں علاج کے لیے کیٹیگری اے ہسپتال بٹ خیلہ لے کر پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ ہسپتال میں کتوں کے کاٹنے کی ویکسین، دستیاب ہی نہیں ہے۔ ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث متاثرہ بچوں کو سوات منتقل کرنا پڑا، جس سے والدین کو مزید مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی لوگوں نے اس صورتحال پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

شریف آباد بٹ خیلہ کے رہائشی عبداللہ نے بتایا کہ رات کو شریف آباد اور بہادر آباد کے لوگ اپنے زخمی بچوں کو لے کر کیٹیگری اے ہسپتال بٹ خیلہ پہنچے تھے۔ وہ تمام لوگ شدید پریشانی کی حالت میں تھے، لیکن ہسپتال انتظامیہ نے انہیں بتایا کہ ویکسین ‘ہیموگلوبن’ دستیاب نہیں ہیں اور انہیں صبح تک انتظار کرنا ہوگا۔ عبداللہ کا کہنا تھا، "ہمارے بچوں کی حالت ایسی تھی کہ ہم ایک منٹ بھی انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ یہ کیٹیگری اے کا ہسپتال ہے، یہاں پر اس قسم کی ویکسین کا موجود نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے۔”

ہسپتال میں سہولیات کی کمی پر متاثرہ بچوں کے والدین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ ایک اور زخمی بچے کے والد نے کہا کہ جب ہم بچوں کو ہسپتال لائے تو ہمیں یقین تھا کہ یہاں مکمل علاج ہوگا، لیکن ویکسین کی عدم دستیابی سے ہمیں مایوسی ہوئی۔ "ہسپتال انتظامیہ کو ایسے حالات کے لیے تیار رہنا چاہیئے تاکہ زخمیوں کا فوری علاج ممکن ہو سکے۔”

اس حوالے سے جب ایم ایس بٹ خیلہ ہسپتال ڈاکٹر قاضی عرفان الدین سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ٹی این این کو بتایا، "ہمارے پاس ٹی ٹی اور اینٹی ریبیز ویکسین (ARV) سینکڑوں کی تعداد میں دستیاب ہیں، لیکن اس واقعے میں چند بچوں کو باؤلے کتوں نے ناف سے اوپر کاٹا تھا، جس کے لئے مخصوص ریبیز ویکسین ‘ہیموگلوبن’ درکار ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے، یہ ویکسین مارکیٹ میں شارٹ ہے، اور ہمارے ہسپتال میں بھی اسی وجہ سے دستیاب نہیں۔ اگر یہ ویکسین مارکیٹ میں دستیاب ہوتی اور ہمارے پاس نہ ہوتی تو یہ ہماری کوتاہی ہوتی۔ تاہم، جس کمپنی کو ہم نے ویکسین لانے کا آرڈر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان ویکسین کی درآمد بند ہے اسی وجہ سے ویکسین نہیں مل رہی۔ جیسے ہی مارکیٹ میں یہ ویکسین دستیاب ہوگی، ہم اسے فوری طور پر ہسپتال میں مہیا کر دیں گے۔ ہم نے عوام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ جلد ہی ویکسین کی فراہمی بحال ہو جائے گی۔”

محکمہ لائیو اسٹاک بٹ خیلہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نزیر احمد نے اس صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ وہ مختلف علاقوں، خاص طور پر جہاں مال مویشی زیادہ ہوں، میں آگاہی پروگرامز کا انعقاد کرتا ہے۔ ان پروگرامز کا مقصد لوگوں کو ریبیز اور اس کے بچاؤ کے حوالے سے شعور دینا ہے، جبکہ پالتو کتوں کی ویکسینیشن بھی فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم، باؤلے کتوں کو پکڑ کر علاج کے لئے ہسپتال لے جانا ایک مشکل چیلنج ہے۔ ایسی صورتحال میں، اکثر لوگ باؤلے کتوں کو فوری خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں مارنے کی کوشش کرتے ہیں، جو کہ عدالتی احکامات کے مطابق غیر قانونی ہے۔ ڈاکٹر نزیر نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے عوام کو قانونی طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اور محکمہ لائیو اسٹاک بھی تمام اداروں کے تعاون سے اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے اقدامات کر رہا ہے۔

چکدرہ بار ایسوسی ایشن کے وکیل یونس خان نے عدالتی احکامات کے حوالے سے واضح کیا کہ آوارہ اور باؤلے کتوں کو مارنا قانونی طور پر جرم ہے۔ ان کے مطابق عدالتوں نے یہ ہدایات دی ہیں کہ معاشرتی اور قانونی دائرے میں ان کتوں کے حوالے سے ذمہ داریوں کو مدنظر رکھا جائے اور انہیں جان سے مارنا ایک غیر قانونی عمل سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ کچھ حالات میں، جیسے کہ سیلف ڈیفنس کی صورت میں، باؤلے کتے کو مارنے میں قانونی گنجائش دی جا سکتی ہے، تاہم قانون میں اس بارے میں کوئی واضح ہدایات موجود نہیں ہیں۔

یونس خان نے مزید وضاحت کی کہ قانون کے مطابق ٹی ایم اے (ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن) کے اہلکاروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آوارہ کتوں کو پکڑ کر محکمہ لائیو اسٹاک کے حوالے کریں، جو ان کتوں کی نگہداشت اور علاج معالجہ کی ذمہ داری سنبھالے گا۔ تاکہ انہیں محفوظ طریقے سے معاشرتی ماحول میں واپس بھیجا جا سکے۔

تاہم یونس خان نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ ہمارے ملک میں ان محکموں کے پاس وسائل کی کمی ہے، جس کی وجہ سے ان کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر نبھانا ممکن نہیں ہوتا۔ محکموں کے پاس بجٹ کی کمی اور بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے آوارہ کتوں کی بحالی اور علاج کے لئے مؤثر اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ اس وجہ سے معاشرتی سطح پر مسائل بڑھ رہے ہیں اور لوگوں میں آوارہ کتوں کے حوالے سے خوف اور بے چینی پائی جاتی ہے۔

Show More

Muhammad Anas

محمد انس ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کے ساتھ ملاکنڈ سے بطور رپورٹر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف ملاکنڈ سے 2023 میں جرنلزم اور ماس کمیونیکیشن میں بی ایس کیا ہے۔
Back to top button