بلوچستان میں پرنٹ میڈیا آخری سانسیں لے رہی ہے
محمد غضنفر
کوئٹہ میں 17سال سے اخبارات کی ترسیل کرنیوالے ہاکر محبوب علی گزشتہ 2 سالوں سے شدید مالی اور ذہنی مشکلات کا شکار ہیں. وہ ہاکر کا کام چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن متبادل روزگار نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہے۔
محبوب علی کے مطابق بلوچستان میں اخبارات کی ڈیمانڈ میں 70فیصد کمی ہوگئی ہے جسکی وجہ سے اُنکا کمیشن بمشکل ماہانہ 13 ہزار روپے بنتا ہے جس میں گھر چلانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگیا ہے۔ جب وہ اخبار کی ترسیل کے شعبے میں ہاکر کا کام کرنے آئے تھے تو انکی ماہانہ کمیشن 30سے 40ہزار روپے تک ہوتی تھی لیکن گزشتہ دس سالوں میں مہنگائی بڑھنے کے ساتھ انکی آمدنی بھی تیزی سے کم ہوتی چلی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے سرکاری دفاتر مختلف اخبارات کی 20 کاپیاں لیتے تھے لیکن اب بیشتر سرکاری دفاتر نے اخبارات بند کردئیے ہیں اگر کچھ سرکاری دفاتر اخبارات لے رہے ہیں تو وہ بھی بمشکل مختلف اخبارات کی صرف 3 سے 5 کاپیاں لیتے ہیں۔ اسی طرح بیشتر گھروں میں بھی اخبارات اب بند ہوچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب نیٹ پر خبر مل جاتی ہے تو اخبار خرید کر کیا کرنا ہے وہ کوئٹہ کینٹ میں پہلے 380 مختلف اخبارات لیجاتے تھے جبکہ اب کوئٹہ کینٹ میں صرف 65 اخبارات لے کے جاتے ہیں۔
مارکیٹ میں جنگ کی 24 ہزار کاپی آتی تھیں جو اب صرف 4 ہزار 500 ہوگئیں
محبوب علی نے بتایا کہ پہلے کوئٹہ کے اخبار مارکیٹ میں جنگ کی 24 ہزار کاپی آتی تھیں جو اب صرف 4 ہزار 500 ہوگئیں ہیں۔ اب جنگ ایکسپریس مشرق اور لوکل اخبارات ملا کر بھی اخبار مارکیٹ میں 9 ہزار کاپیاں پوری نہیں ہوتی۔ بڑے اخبارات پر کمیشن 8 سے 10 روپے ہے جبکہ چھوٹے اخبارات 3 سے 5 روپے کمیشن دیتے ہیں۔ تو اندازہ لگائیں کہ 9 ہزار اخبار کی کاپیوں پر 400 ہاکر کیا کمیشن کماتے ہونگے۔ اگر سرکاری دفاتر اخبارات بند نہ کریں تو ہاکروں کا روزگار ٹھیک چلے گا جبکہ گھریلو صارفین کو بھی سوچنا چاہئے کہ ماہانہ ہزار روپے دینے سے ہاکروں کے گھروں کا چولہا جلتا رہے گا۔
کوئٹہ شہر کے باچا خان چوک پراخبارات کا اسٹال چلانے والے 55 سال عبدالعلیم کہتے ہے کہ پہلے باچا خان چوک پر 12 سے زائد اسٹال ہوتے تھے جو کم ہوتے ہوئے اب صرف 2 اسٹال رہ گئے ہیں جہاں روزنامہ، ہفت روزہ، ماہانامہ، اور رسالے بیچے جاتے ہیں لیکن اب خریدنے والے انتہائی کم ہیں۔ جس دن اخبار میں ٹینڈر آسامیاں اور عدالتی اشتہار ہو تب اخبار زیادہ بِکتا ہے۔ خبر پڑھنے کیلئے اب بہت کم لوگ اخبار خریدتے ہیں۔ اخبار کم بکنے کی وجوہات بتاتے ہوئے اُنکا کہنا تھا کہ پہلے سرکلر روڈ پر بس اڈا ہوتا تھا تو مسافر اخبارات لے جایا کرتے تھے پھر اڈا ختم ہونے کے ساتھ نیٹ اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد لوگ ویسے بھی اخبارات لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
سوشل میڈیا آنے کے بعد اخبارات کی ریڈر شپ بہت کم ہوئی ہے
عبدالعلیم کہتے ہیں کہ پہلے اخبارات میں بڑی بڑی خبریں ہوا کرتی تھیں تو ہم بھی آواز لگا کر خبر بتاتے تھے تو لوگ اخبار خریدنے کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ اب تو اخبار میں کوئی لوکل بڑی خبر ہوتی ہی نہیں سارے اخبارات پریس ریلیز اور سرکاری بیانات سے بھرے ہوتے ہیں ایسے میں کون اس مہنگائی میں اخبار خریدے گا۔
جامعہ بلوچستان کے شعبہ ابلاغ عامہ کے چیئرمین ببرک نیاز کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم آنے کے بعد اخبارات کی ریڈر شپ بہت کم ہوئی ہے۔ کیونکہ اخبار میں خبر 24 گھنٹے بعد آتی ہے لیکن سوشل میڈیا پر خبر منٹوں میں آجاتی ہے۔ موبائل لیپ ٹاپ نیٹ ہر ایک بندے کے پاس موجود ہے جسکی وجہ سے لوگوں کو معلومات مل جاتی ہیں اور واٹس ایپ گروپس نے نیوز تک رسائی کو مزید آسان کردیا ہے۔
جو اچھے لکھاری تھے وہ بھی ٹی وی پر یا اپنے یوٹیوب چینل پر آگئے ہیں
ببرک نیاز کہتے ہیں کہ جو اچھے لکھاری تھے وہ بھی ٹی وی پر یا اپنے یوٹیوب چینل پر آگئے ہیں۔ اور اخبارات کی کوالٹی بھی وہ نہیں پہلے عوامی مسائل کی نشاندہی اداریہ یا اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی میں نظر آتی تھی۔ اخبارات میں مکالمہ بھی آتا تھا لیکن اب وہ بھی ختم ہوگیا ہے اخبارات کا جومقصد تھا وہ تقریباََ دم توڑ چکا ہے۔
ببرک نیاز کہتے ہے کہ اس کے علاوہ اگر دوسرا رُخ بھی دیکھیں تو معاشرے میں پڑھنے کا رجحان بھی کم ہوگیا ہے۔ اخبارات ڈیجیٹل میں بھی آتے ہیں لیکن بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کالم کسی نے پی ڈی ایف میں پڑھا ہو۔ یونیورسٹی کالجز میں پڑھانے والے بھی اب طلبا ء کو پڑھنے کیلئے مخصوص مواد دیتے ہیں جبکہ پہلے پوری پوری کتاب دی جاتی تھی۔ پھر آرٹفیشل انٹلیجنس نے مزید تحقیق اور پڑھنے کے عمل کو کم کردیا ہے۔ آج کے نوجوان کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد اور آسانی سے متعلقہ مواد حاصل کرلیا جائے جسکی وجہ سے پڑھنے کا عمل مزید کم ہوا ہے۔
اب پاکستان میں صحافت مشن نہیں کاروبار بن گیا ہے
ببرک نیاز سمجھتے ہیں کہ اب پاکستان میں صحافت مشن نہیں کاروبار بن گیا ہے۔ آج کے مالکان کی توجہ خبر نہیں اشتہار پر ہوتی ہے جسکی وجہ سے وہ اپنے مفاد سے ہٹ کر کسی کے خلاف نہیں جا سکتے اور یہی وجہ ہے کہ خبر کی نوعیت متاثر ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جامعہ بلوچستان سے ہرسال بی ایس کے 50 طلباء پاس آؤٹ ہوتے ہیں لیکن میڈیا میں 5 فیصد ہی مشکل سے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ میڈیا کے طلباء بھی یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہاں تھیٹر یا فلم پڑھائی جاتی ہے لیکن جب وہ پڑھتے ہیں تو پھر میڈیا میں نہیں جاتے جو میڈیا کو سمجھ کہ آتے ہیں وہ ہی نیوز میڈیا میں آتے ہیں جبکہ بلوچستان کے میڈیا میں صرف 4 خواتین رپورٹر ہیں۔ یہاں سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی بھی ہے جہاں سے ہر سال ماس میڈیا کی طالبات بڑی تعداد میں پاس آؤٹ ہوتی ہیں۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری منظور بلوچ کہتے ہیں کہ ہماری یونین کی بڑی واضح اور سخت پالیسی ہے کہ ہم نہ ڈمی اخبارات کو مانتے ہیں نہ بیگار کیمپس کو مانتے ہیں۔ ہم ایسے ڈیکلریشن کی مخالفت کرتے ہیں جو اخبار چند کاپیاں چھاپ کر سرکاری اشتہارات لے لیتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے تمام اخبارات باقاعدہ اسٹاف رکھیں اور بیگار کیمپ وہ اخبارات ہیں جو مارکیٹ میں تو ہوتے ہیں لیکن یہ نیوز ایجنسیوں کی خبروں پر چلتے ہیں۔ ان کے اپنے کوئی رپورٹر فوٹو گرافر نہیں ہوتے اور یہ لوگوں کو بغیر تنخواہ کے اپنا کارڈ تھما کر کام لیتے ہیں اس لیے ہی ہم ایسے لوگوں کو ممبر شپ نہیں دیتے جو مستقل کسی ادارے میں تعینات نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے بی یو جے کو تنقید کا سامنا ہے اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ہمارا کہیں یونٹ نہیں ہے کیونکہ ایک سسٹم چلا ہوا ہے کہ خود بھی کمائیں اور ادارے کو بھی کما کے دیں جسکی وجہ سے صحافت بھی متاثر ہورہی ہے اور اس عمل کو ہم صحافتی معیار و اقدارکے خلاف سمجھتے ہیں۔
بلوچستان میں اخبارات ڈیجیٹل سائیڈ پر نہیں آرہے
منظور بلوچ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں اخبارات اگر زوال پر گئے ہیں تو وہ ڈیجیٹل پر آگئے ہیں لیکن یہ چیز ہم بلوچستان میں نہیں دیکھ رہے کیونکہ وہ ڈیجیٹل میڈیا پر جعلی سرکیلشن ظاہر نہیں کرسکتے۔ وہاں مقابلہ کرنا پڑتا ہے بلوچستان میں چند اخبارات ہیں جو ڈیجیٹل ہوگئے ہیں۔ بیشتر اب تک نہیں ہوئے یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں پرنٹ میڈیا کی صحافت ختم ہونے کے قریب ہے۔ ہم کئی بار مختلف اخبارات کے مالکان سے بھی مل چکے ہیں اور اُنہیں ملازمین رکھنے کا کہا ہے جبکہ ہم نے حکومت سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈمی اخبارات کو باقاعدہ دفتر اور اسٹاف رکھنے کا پابند کرے تاکہ بلوچستان میں روزگار کے مواقعوں کے ساتھ میڈیا کے طلباء کو بھی صحافت کا موقع ملے۔ اور پرنٹ میڈیا صحافت بھی پروان چڑھے۔
بلوچستان حکومت کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی کہتے ہیں کہ بے روزگاری کا مسئلہ ہر شعبے میں ہے۔ بلوچستان میں صحافت آزاد ہے میڈیا اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ گریجویٹ ہونیوالے نئے صحافیوں کو تربیت اور مواقعے فراہم کریں۔ لیکن یہ بھی دُرست ہے کہ اس وقت لوکل اخبارات مالکان کو بھی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ سرکاری اشتہارات بہت کم ہیں جبکہ بلوچستان میں پرائیویٹ سیکٹر اتنا مضبوط نہیں ہے۔ مگر پھر بھی انڈسٹری کو زندہ رکھنے کیلئے اداروں کو قربانی دینی ہوتی ہے۔ مشکلات وقتی ہوتی ہے بلوچستان کے اخبارات کے مالکان کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے میں صحافت کے فروغ کیلئے کردار ادا کریں۔ نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے مزید بتایا کہ اخبارات کو اشتہارات اُنکی سرکلیشن کے حساب سے دئیے جاتے ہیں جس میں اخبارات میں کام کرنیوالے ملازمین کی تعداد اور تنخواہوں کو نہیں دیکھا جاتا۔
نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔