ابراہیم خان
قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے میں درجن بھر دن باقی بچے ہیں۔ اگر حکومت کے خاتمے سے متعلق آئین پر عمل درامد ہوتا ہے تو ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومتی دورانیہ اختتام کے قریب تر ہو رہا ہے۔ عام طور پر کسی جمہوری نظام ریاست میں ایسے مواقعوں پر عام انتخابات کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک عرصے تک یہی طور طریقہ چلتا رہا لیکن سابق وزیراعظم عمران خان تو نیا پاکستان کا نعرہ لگا کر نئے پاکستان کو بھول گئے تھے تاہم ان کے مخالفین نے ایسا نیا پاکستان بناڈالا جس میں نئی اور اچھوتی مثالیں قائم کر لی گئیں۔ یہ مثالیں ان کے "موجدوں” کا ہمیشہ تعاقب کرتی رہیں گی۔
ان حکمرانوں اور ان کے طاقتور سہولت کاروں کی اس روش کو دیکھتے ہوئے بے یقینی کی صورتحال بڑھ گئی ہے۔ بدلے حالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک بھر میں عوام ہو یا خواص کوئی بھی اگلے عام انتخابات کی بات نہیں کر رہا جبکہ طاقتور حلقوں کی طرف سے نگران وزیراعظم کا چناؤ ان سب معاملات سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔نگران وزیراعظم کی زیادہ بات اب اس لئے کی جا رہی ہے کہ اس عہدے کو باقاعدہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کے ذریعے بہت زیادہ اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کو ضرورت سے بڑھ کر اختیارات دینے کے معاملے میں تو پاکستان مسلم لیگ نون نے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا، لیکن یہ کردار اسے 30 جولائی بروز اتوار کو ادا کرنا بہت مہنگا پڑ گیا۔ حکومت کی طرف سے تدارک تشدد و انتہا پسندی کا بل ایوان بالا میں پیش کردیا گیا۔
یہ بل بنیادی طور پر پاکستان تحریک انصاف کی سرکشی کو کچلنے اور اسے اگلے عام انتخابات سے پہلے پابندی لگانے کے لئے پیش کیا گیا تھا۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف پہلے ہی بہت سے مقدمات درج ہیں جن میں ان کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے تو پھر اس بل کو اتنی عجلت میں لانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ ضرورت اس وجہ سے پڑی کہ حال ہی میں حکومت نے مختلف جماعتوں کی مقبولیت کے بارے میں جو عوامی سروے کرائے، ان میں اب بھی پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ بینک دیگر جماعتوں سے زیادہ پایا گیا۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں حکومت سمیت فیصلہ سازوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگلے بیلٹ پیپر میں پاکستان تحریک انصاف کو بطور جماعت شامل ہی نہ کیا جائے۔ گویا نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری والا معاملہ کیا گیا۔ اس لیے سینٹ میں جو بل پیش کیا گیا اس بل کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف سمیت ملک کے تمام سیاسی حلقے، اس بات پر متفق ہیں کہ یہ بل پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر رکھنے کے لئے لایا جا رہا ہے۔
شو مئی قسمت کے اس بل میں قواعد کے تحت کہیں بھی پابندیوں سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کا نام تو نہیں لکھا جا سکتا اس لئے بل میں ہر جگہ پابندی لگانے سے پہلے سیاسی جماعت لکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بل اگر اج قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو پھر کل کو اس کا اطلاق کسی بھی سیاسی جماعت پر ہو سکتا ہے۔ اس سیاسی جماعت کا تعلق موجودہ حکمران اتحاد میں سے بھی کسی ایک سے ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون کو بل تو تھما دیاگیا، لیکن یہ بل کسی قائمہ کمیٹی یا سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر براہ راست ایک مقدس دستاویز کی مانند سینیٹ میں پیش کر دیا گیا۔ اس بل کو رازدار ری میں رکھنے کے لئے خصوصی طور پر چھٹی کے روز سینیٹ کا اجلاس بلایا گیا۔ ان سینیٹرز کے ہاتھوں میں جب بل کی کاپیاں آئیں تو ان کے اپنے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔ اس بل کی چند خوفناک شقیں یہاں درج کی جا رہی ہیں۔
مجوزہ بل کے تحت کسی بھی جماعت کے شک کی بنیاد پر مالی اثاثے منجمد کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح شک کی بنیاد پر ہی انٹیلی جنس ایجنسیوں کوکسی سیاسی جماعت اور عہدے داروں کی سرگرمیاں باقاعدہ طور پر مانیٹر کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ اس بل کے تحت جو بھی سیاسی جماعت مشکوک ہوگی اس کے قائدین کے پاسپورٹ کسی بھی وقت ضبط کئے جا سکیں گے اور نیا پاسپورٹ بھی جاری نہیں کیا جائے گا۔ اس بل میں یہ بھی درج ہے کہ سیاسی جماعت کے لئے سیکیورٹی کے غرض سے لئے گئے اسلحہ کا لائسنس کسی بھی وقت منسوخ کیا جا سکتا ہے اور سیکیورٹی کی غرض سے جو اسلحہ موجود ہوگا اسے ضبط بھی کیا جا سکے گا۔
اس بل میں یہ شق بھی شامل ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت پر شکوک و شبہات ثابت ہو گئے تو اس کے سارے کے سارے مالی اثاثے نیلام کر دئے جائیں گے۔ اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ ہوگی کہ اس جماعت سے وابستہ لوگوں کے کاروبار بھی بند کر دیے جائیں گے۔ اس بل میں یہ جمہوریت مخالف شق بھی موجود ہے کہ کسی بھی عہدے دار کو تفتیش کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی انتہا پسندی کے شک پر کسی بھی جماعت کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے۔ ان شقوں میں کسی کے ساتھ بھی یہ درج نہیں ہے کہ یہ شقیں صرف پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے بلکہ اسے کچلنے کے لئے متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں نے اس بل کی مخالفت کی۔ بعض سینیٹرز نے یہ تجویز دی کہ اس بل کو قائمہ کمیٹی کے پاس بھجوا دیا جائے لیکن چیئرمین سینٹ نے انتہائی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی طرف سے یہ کریڈٹ لیا کہ انہوں نے اس بل کو ہی اتوار کے روز ایجنڈے سے نکال دیا۔ اگر چیئرمین سینیٹ جمہوری قوتوں کا ساتھ دیتے تو پھر انہیں اس بل کوسینٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوانا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اس اعتبار سے یہ بل اب سینیٹ کے اوپر لٹکتی تلوار ہے جو کسی بھی وقت مناسب حالات دیکھ کر ایوان میں پیش کیا جائے گا اور باقاعدہ حکمت عملی بنا کر اس بل کو منظور بھی کر لیا جائے گا۔ یہ بل اگر منظور ہوتا ہے تو یہ جمہوریت پر کھلم کھلا حملہ ہوگا۔ستم ظریفی یہ ہوگی کہ اس حملے میں خود سیاستدانوں کا کاندھا استعمال کیا جائے گا۔
سینٹ میں پیش کیا جانے والا یہ بل اب سیاسی جماعتوں کی فہم و فراست کا امتحان ہے کہ وہ اس بل کو کسی دباؤ میں منظور کرتے ہیں یا پھر جمہوریت کی بالادستی پر کم سے کم حد تک یقین رکھتے ہوئے اس بل کو مسترد کرتے ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی اتحاد سمیت تمام سیاسی جماعتیں اس بل پر یکسو کیوں دکھائی دے رہی ہیں؟اس سوال کا جواب پاکستان کی مقتدر قوتوں کا بنتا بگڑتاموڈ ہے۔ اج اگر یہ قوتیں پاکستان تحریک انصاف کے مخالف ہیں، تو ماضی میں موجودہ مسلم لیگ اس کے نشانے پر ہوا کرتی تھی. اس قسم کی ان بن کا دور پاکستان پیپلز پارٹی بھی دیکھ چکی ہے۔ اس لئے اس بدلتے موڈ کی وجہ سے سیاسی جماعتیں اس بل پر نہ صرف محتاط ہو گئی ہیں، بلکہ ان میں یہ خوف پیدا ہو گیا ہے کہ اگر آج اس بل سے پاکستان تحریک انصاف کو دبایا جائے گا، تو کل کو وہ بھی اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ اس لئے یہ اتحاد بین الاالسیاسی جماعت غیر مرئی طور پر استوار ہو چکا ہے۔ اگر یہ اتحاد حقیقی معنوں میں برقرار رہا تو پھر غالب امکان یہی ہے کہ تدارک تشدد و انتہا پسندی کا بل ایوان بالا سے منظور نہیں ہو پائے گا. اگر یہ بل منظور نہیں ہوتا تو یہ بلا شبہ جمہوریت کی جیت کہلائے گا.
ملک کے اندر اس وقت جو سیاسی اور عسکری نزدیکیاں چل رہی ہیں اس پر بھی لگے ہاتھ تھوڑی سی بات ہو جائے تو سینیٹ میں پیش ہونے والے بل اور سیاسی صورتحال کی زیادہ بہتر سمجھ آسکتی ہے۔موجودہ اتحادی حکومت جب قائم ہوئی تو سول انتظامیہ اور عسکری حلقوں میں باقاعدہ ایک تال میل موجود تھا لیکن یہ تال میل جنرل باجوہ کے چیف آف آرمی سٹاف رہنے تک حکومتی عہدیداروں کے مطابق کچھ زیادہ مثالی نہیں تھا۔ وفاقی وزراء بار بار کہتے رہے ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو جنرل باجوہ کی ملازمت میں رہنے کے آخری دن تک سہولت کاری میسر رہی۔ ان وزراء کے کہنے کے مطابق ہی گویا انہیں پوری طرح با اختیار حکومت نومبر 2022 کے آخری آیام میں ملی۔ اس دعوے کے مطابق نومبر کے بعد دونوں کے درمیان گاڑی خوب چھن رہی تھی لیکن پھر ایسا کیا ہو گیا کہ ایک ہی دم وفاقی وزیر دفاع خواجہ اصف نے چند روز قبل ایک انٹرویو میں یہ کہہ دیا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ کے دورمیں انہیں اپریل مارچ 2019 میں ایک حاضر سروس جرنیل نے اقتدار میں لانے کی پیشکش کی تھی۔
خواجہ اصف کے کہنے کے مطابق اس جرنیل نے انہیں پیشکش کی تھی کہ پہلے انہیں جون 2019ء میں پنجاب کی حکومت دے دی جائے گی جبکہ دسمبر2019ء میں انہیں وفاقی حکومت دے دی جائے گی۔اس انٹرویو کے بعد شنید ہے کہ عسکری اور سول قیادت میں تناؤ موجود ہے۔ اس تناؤ کی بنیادی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ مستقبل کے اقتدار کی تقسیم کا جو فارمولا بنایا گیا ہے وہ مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کو پسند نہیں آیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ مستقبل کے اقتدار میں مبینہ طور پرنہ تو میاں نواز شریف خود اور نہ ہی ان کی صاحبزادی مریم اقتدار میں کہیں دکھائی دے رہی ہیں۔یہی وہ وجہ ہے جو باعث تناؤ ہے۔اسی وجہ سے خواجہ آصف نے 2019 ء کی "رازداری "اب آشکار کردی،حالانکہ اگر وہ چاہتے تو چار سالہ پرانا راز کسی بھی وقت اگل سکتے تھے۔اس اعتبار سے ان کے انٹرویو کی ٹائمنگ اور سینیٹ میں تدارک تشدد و انتہا پسندی کا بل دونوں ہی اہم ہیں۔