عشق معصوم: دعا کی ماں کیلئے ہم دعا ہی کر سکتے ہیں!
حمیرا علیم
سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرہ کیس میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے اور توقع ہے کہ آج ہی اس درخواست سے متعلق کوئی حکم سنایا جائے گا۔ ٹی وی چینلز پر سماعت کے دوران دعا زہرہ کی والدہ کے آنسو اور سسکیاں دیکھ کر جی اس دنیا سے اچاٹ سا گیا ہے۔ امِ دعا کے لئے ہم دعا ہی کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں۔
مجھے اس لفظ عشق اور پھر اس کے ساتھ بھولا لگنے پہ شدید اعتراض ہے۔ بطور مسلم مجھے حکم ربی ہے کہ نامحرم سے کسی بھی قسم کی بات چیت، تعلق یا دوستی نہ رکھوں، اس سے اپنا آپ اپنی زینت چھپاؤں۔ مگر ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ہمیں اور کچھ سکھائے یا نہ سکھائے عشق معشوقی، اس کے داؤپیچ اور اس کے فوائد ضرور سکھا رہا ہے۔اور اسی کا نتیجہ والدین بھگت رہے ہیں۔ کبھی چودہ پندرہ سال کی بچیاں گھروں سے فرار ہو کر شادیاں کر لیتی ہیں تو کبھی پندرہ سولہ سالہ بچے خودکشی کر لیتے ہیں۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اسلام سے روشناس کروائیں تاکہ دجالی پراپیگنڈا سے بچ سکیں۔ انہیں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی سورہ نور، التحریم اور الاحزاب ترجمے و تفسیر کے ساتھ پڑھائیں، سمجھائیں اور عمل بھی کروائیں۔ انہیں امہات المومنین اور یوسف علیہ السلام کی سیرت طیبہ پڑھائیں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ ایک مسلمان مرد و عورت کو کیسا ہونا چاہیے۔
یاد رکھیے نامحرم مردو زن کے درمیان کوئی بھی تعلق کبھی بھی پاک یا معصوم نہیں ہو سکتا۔ ڈراموں میں بولا گیا یہ ڈائیلاگ قرآنی آیات کے منافی ہے؛ ” ہماری محبت تو پاک ہے۔”
پاک محبت صرف اور صرف والدین کی اولاد سے اور اولاد کی والدین سے ہو سکتی ہے۔ کیونکہ والدین اپنے دل کے ٹکڑے کو پروان چڑھا کر پہلے تعلیم پھر نوکری اور کامیاب شادی شدہ زندگی کیلئے خود سے دور کرتے ہیں مگر دونوں کی محبت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ جبکہ نامحرم مرد و عورت کی محبت ہوس پوری ہوتے ہی ایسے غائب ہو جاتی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
میڈیا میں بچیوں کے گھر سے بھاگ کر نکاح کرنے کی رپورٹس پہ کچھ صحافی اور اینکرز نے سوکالڈ علمائے دین اور ماہرین نفسیات سے بات کی۔ جن کا کہنا تھا کہ والدین کو بچوں پہ بے جا سختی نہیں کرنی چاہیے، پابندیاں نہیں لگانی چاہئیں، ان کے دوست بن کر رہنا چاہیے تاکہ وہ یہ قدم نہ اٹھائیں۔
ذرا تصور کیجئے جن چودہ سالہ بچیوں کے پاس دس سال کی عمر سے ٹیبلٹس اور فون موجود ہوں، انٹرنیٹ کی سہولت ہو وہ پب جی کھیلتے کھیلتے محبت کا کھیل کھیلنے لگیں اور پھر کراچی سے لاہور ایک رینٹ کی کار میں پہنچ کر شادی کر لیں۔ ان پہ کتنی سختی اور پابندی ہو گی۔ اگر والدین ان کی شادی چودہ سال کی عمر میں کروا دیتے تو میڈیا اور این جی اوز نے طوفان برپا کر دینا تھا کہ بچوں پہ ظلم کیا جا رہا ہے۔ لیکن اب جبکہ یہ کم عمر بچے بچیاں غیرشرعی اور غیراخلاقی عمل کر رہے ہیں تو بجائے انہیں سمجھانے کے والدین کو ہی قصوروار ٹھہرا کر سمجھایا جا رہا ہے۔ یہ کیسا تضاد ہے؟
اگر والدین اپنی اولاد کو غلط کام سے روکتے ہیں اور اچھے برے کی تمیز سکھاتے ہیں اور ان کے نہ ماننے پہ سختی روا رکھتے ہیں تو یہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے، جس میں بچوں کو نماز نہ پڑھنے پہ مارنے کی بھی اجازت ہے۔جس میں والدین کو تربیت اولاد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور اس کیلئے وہ جوابدہ ہوں گے۔ اپنے فرائض کو پورا کرنے کیلئے انہیں ہر حربہ استعمال کرنے کا حق ہے۔
فرض کریں بچہ چھری سے اپنا ہاتھ کاٹنا چاہتا ہے اور پیار سے چھری چھوڑنے کو تیار نہیں اس پہ والدین اسے ایک تھپڑ لگا کر چھری چھین لیتے ہیں تو کیا یہ ظلم ہو گا؟ اگر وہ بچے کو چھری سے زخمی ہونے دیتے تو درست فعل ہوتا؟ والدین اپنے تجربے کی بدولت جانتے ہیں کہ کیا چیز بچے کیلئے اچھی ہے اور کیا بری۔ اگر بچہ ان کی روک ٹوک کو پابندی سمجھتا ہے تو کیا یہ جائز ہو جاتا ہے کہ وہ گناہ کرے؟ اگر اسے والدین سے پیار نہیں ملتا تو کیا اس پیار کو نامحرموں میں تلاش کرنا حلال ہو جائے گا؟
اب ان والدین کے پوائنٹ آف ویو سے بھی دیکھیے جو اپنے بچوں کو ہر طرح کی ضروریات زندگی اور آسائش زندگی مہیا کرنے کیلئے دن رات محنت کرتے ہیں تاکہ ان کے بچے کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ اور ان کیلئے ان کا چودہ پندرہ سالہ بچہ اس قدر معصوم ہے کہ اسے کسی قسم کی کوئی برائی چھو کر بھی نہیں گزری۔ جب ان پہ یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہی معصوم بچہ راتوں کو غیراخلاقی مواد دیکھتا ہے، گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کے ساتھ گپییں لگاتا ہے،اسکول بنک/ترک کر کے نہ صرف اپنے محبوب سے ملنے جاتا ہے بلکہ تمام حدیں پار کر جاتا ہے اور آخرکار گھر سے بھاگ کر شادی کر لیتا ہے تو ان پہ کیا گزرتی ہو گی۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ان بچوں کے نکاح پڑھانے والے نکاح خواں اور مجسٹریٹس نہ ان سے آئی ڈی کارڈ مانگتے ہیں نہ ہی ولی کا پوچھتے ہیں۔ یہ کیسے قانون کے محافظ اور دین کے عالم ہیں جو قانون شکنی کر رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ لڑکی کا نکاح ولی کے بغیر نہیں ہوتا۔ اور اگر ولی کے بغیر نکاح کر لیا جائے تو علماء کے مطابق یہ نکاح جائز نہیں اور ایسی شادی کی صورت میں ہونے والی اولاد ولد الزام ہے۔ پھر کیسے نکاح خواں اور مجسٹریٹ ایسی شادیاں کروا دیتے ہیں؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسی شادیوں کا انجام اکثر بے حد بھیانک ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم سبق حاصل نہیں کرتے۔
اس لیے پلیز لفظ عشق کو اپنی زندگیوں سے نکال دیجئے تاکہ معاشرے میں سکون پیدا ہو سکے۔