لڑکی نے پرائے گھر جانا ہے پڑھ لکھ کر کیا کرے گی؟
خالدہ نیاز
آج صبح دفتر آتے وقت چند بچوں کو راستے میں دیکھا جو آنے والی گاڑیوں کے آگے کھڑے ہوجاتے، کوئی شیشہ صاف کرتا تو کوئی کچھ بیچتا نظر آتا کہ جب شام کو گھر جائے تو چند روپے گھر لے کرجائے کہ انکے گھر والے بھوکے نہ سوئے۔ میں سوچنے لگی کہ ان بچوں کی یہ عمر تو سکول جانے کی ہے پھر یہ کیوں سڑکوں پرسارا دن خوار ہوتے ہیں پھر خیال آیا کہ کون نہیں چاہتا کہ انکے بچے سکول جائے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو، اعلیٰ عہدوں پرفائز ہو لیکن بعض لوگ حالات کی وجہ سے نہیں کرسکتے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجے۔ میں روزانہ ان بچوں کو دیکھتی ہوں تو میرا دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے کیونکہ انکو نہیں پتہ کہ اتنا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے۔
ان بچوں میں اکثریت بچیوں کی بھی ہوتی ہیں جو روزانہ صبح سویرے گھر سے نکلتی ہیں کہ محنت مزدوری کرکے گھر کچھ روپے کمائیں گی انکو کیا پتہ انکی یہ عمر سکول جانے کی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں شروع ہی سے لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی کہا جاتا ہے ویسے بھی اس نے پرائے گھر جانا ہے پڑھ لکھ کر کیا کرے گی ارے بھائی پڑھ لکھ کر اچھے برے میں تمیز کرے گی، اپنے بچوں کی صحیح پرورش کرے گی اور اگر خدانخواستہ زندگی میں کبھی اس پر برا وقت آجائے تو اپنے لیے خود کماسکے گی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے گی۔
موجودہ وقت میں حالات کسی حد تک بدلے ضرور ہے لوگوں کی سوچ میں کسی حدتک تبدیلی ضرور آئی ہے کہ لڑکیوں کو بھی پڑھنا چاہیئے لیکن پھر بھی کئی ایسے لوگ اب بھی موجود ہے جن کو لگتا ہے کہ لڑکیوں کو پڑھنے کی ضرورت ہے یا اگر باہر جائے گی اور پڑھ لکھ جائے گی تو اس کا دماغ خراب ہوجائے گا حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا ایک لڑکی جب تعلیم حاصل کرلیتی ہے تو اس میں بہت شعور آجاتا ہے وہ جب بھی کوئی کام کرتی ہے تو سب سے پہلے سوچتی ہے کہ اس کے نتائج کیا ہونگے۔
اگر دیکھا جائے تو لوگوں کی سوچ کے ساتھ ساتھ اور بھی ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے اکثر لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں، ان میں کم عمری کی شادی، غربت، وسائل کی کمی، تعلیمی اداروں میں سہولیات کا فقدان اور حکومت کی جانب سے تعلیم کو توجہ نہ دینا بھی اس میں شامل ہے۔
خیبرپختونخوا ایلمینٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے اعدادوشمار کے مطابق 5 سال سے 17 عمر تک 18 لاکھ بچے سکولوں سے باہرہیں جن میں 64 فیصد تک بچیاں اور 36 فیصد بچے شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پرائمری تعلیم کے بعد 79 فیصد بچیاں اور 69 فیصد بچے تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔
نوشہرہ تعلق رکھنے والی گلالئی جو خود اعلیٰ یافتہ ہے کا کہنا ہے کہ اگرچہ اب لوگ چاہتے ہیں کہ انکی بیٹیاں پڑھ لکھ جائے لیکن پھر بھی کئی ایسے مسائل موجود ہیں جس کی وجہ سے اکثر لڑکیاں میٹرک کے بعد گھروں پہ بیٹھ جاتی ہیں۔
گلالئی کا کہنا ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکیوں کا نام میرٹ میں آجاتا ہے ان کا کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ بھی ہوجاتا ہے لیکن پھر یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ تعلیمی ادارہ ان کے گھر سے بہت دور ہوتا ہے تو والدین انکو اتنا دور بھیج نہیں سکتے، پھر ہاسٹل کی بات آجاتی ہے تو ہر کوئی ہاسٹل کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا اس کے علاوہ بعض لوگ نہیں چاہتے کہ انکی بہنیں یا بیٹیاں ہاسٹل میں رہے تو یہ بھی ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں۔
گلالئی کا مزید کہنا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ لڑکی پڑھ لکھ کر کونسا نوکری کریں گی جبکہ لڑکا نہ بھی پڑھنا چاہے تو اس کو زبردستی کسی اچھے تعلیمی ادارے میں بٹھا دیا جاتا ہے کہ ڈگری لے لے کیونکہ اس کو آگے نوکری بھی کرنی ہے۔ اگر ایک لڑکی پڑھ لکھ جاتی ہے تو ضروری نہیں کہ وہ نوکری کرے آجکل سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کا دور ہے تو اگر وہ تعلیم یافتہ ہوگی تو وہ اس قابل ہوگی کہ دیکھے اس کے بچے کیا کررہے ہیں آیا وہ پڑھ رہے ہیں یا کوئی غلط چیز تو نہیں دیکھ رہے۔
آجکل اگر دیکھا جائے تو مہنگائی بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے غریب عوام کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے تو وہ اپنے بچوں کو کیسے پڑھائیں گے۔ حکومت کو تعلیم اور خصوصا لڑکیوں کی تعلیم کی جانب خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ تعلیم سب کا بنیادی حق اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔
کاش مجھے وہ دن جلد دیکھنے کو ملے جب کوئی بھی بچہ سڑک پہ کھڑا نہ ہو، گاڑی کا شیشہ صاف کرنے کی بجائے اس کے ہاتھوں میں قلم ہو اور گلے میں بستہ ہو۔