بلاگزخیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

لاک ڈاؤن اور کورنٹائن میں آپ کے مشاغل کیا ہیں؟

 

افتخار خان

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی تیزی سے پھیلتی کورونا وائرس کی وبا سے بچاؤ کے بارے میں تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس سے بچنے کا واحد ذریعہ سماجی میل جول سے پرہیز ہے۔

خیبرپختونخوا سمیت ملک کی تمام صوبائی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کر دیا ہے جس میں روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کے دوکان جیسے فارمیسی سٹورز، کریانہ سٹورز، پٹرول پمپس، سبزی کی دکانیں وغیرہ کے علاوہ تمام مارکیٹس، ریستوران، ہوٹلز اور شاپنگ مالز بند کردیئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کو گھروں تک محدود رکھنے کے لئے نہ صرف اضلاع کے درمیان چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ بلکہ شہروں کے اندر چلنے والی بسیں، ویگنز، ٹیکسی اور رکشوں پر بھی ایک ہفتے کے لئے پابندی عائد کردی ہے۔

گو کہ خیبرپختونخوا سمیت پاکستان کے زیادہ تر لوگ اب بھی نہ تو ماہرین کی تدابیر پر عمل کرنے کے موڈ میں نظر آرہے ہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے احکامات پر عمل کر رہے ہیں اور جگہ جگہ کہیں کھیل کود میں مصروف ہیں تو کہیں دھوم دھام سے شادیاں ہو رہی ہیں لیکن پھر بھی لاکھوں ایسے ہیں جنہوں نے ساری دنیا میں رواں مہم ‘اپنے گھر کے اندر’ رہو کے پیش نظر خود کو اپنے گھروں تک محدود کرلیا ہے۔

سارا دن اور ساری رات گھر کے اندر رہنا ویسے تو سب کیلئے آسان نہیں لیکن یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لئے بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے جو روزمرہ زندگی میں ملازمت یا دیگر کام کاج کے سلسلے میں گھر سے باہر رہنے کے عادی ہیں۔

چین کے حوالے سے ایک خبر پر نظر پڑی کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر کورنٹائن میں جانے کے بعد ملک میں طلاق کی شرح میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے تو اس کے برعکس یورپی ممالک میں کورنٹائن کے دوران آن لائن سٹورز پر مانع حمل اشیاء یا ادویات کی ڈیمانڈ کئی گنا بڑھ گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہاں چین کے برعکس جوڑوں میں اختلافات اور جھگڑوں کی بجائے ازدواجی تعلقات میں بہتری بلکہ گرمجوشی آئی ہے۔

ہمارے ہاں جو چند ایک لوگ سیلف آئسولیشن یعنی خودساختہ تنہائی یا قرنطینہ میں چلے گئے ہیں تقریباً ہر ایک نے اپنی بوریت ختم کرنے کے لئے نت نئے طریقے ڈھونڈ لئے ہیں تاکہ چینی لوگوں کی طرح ان ایک دو ہفتوں میں تنگ آکر گھر میں جھگڑے نہ شروع کردیں۔

ہمارے معاشرے میں عام خواتین کے لئے گھروں سے 14، 15 دن باہر نہ نکلنا شاید اتنا بڑا مسئلہ نہ ہو لیکن جو ملازمت پیشہ خواتین ہیں اور اب ورک فرام ہوم یعنی گھر سے دفتری کام کر رہی ہیں ان کے لئے یہ سب منیج کرنا تھوڑا مشکل ہو سکتا ہے۔

لبنیٰ حئی پشاور میں ایک نجی ادارے کے ساتھ کام کرتی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر صبح بچوں کو سکول چھوڑنے کے بعد دفتر جاتی ہیں اور شام کو واپس آکر گھریلو کام نمٹا لیتی ہیں۔

لبنیٰ حئی کہتی ہیں کہ پچھلے آٹھ دن سے وہ گھر سے نہیں نکلیں لیکن اس مشکل وقت سے وہ گھبرانے اور اسے اپنے اوپر حاوی کرنے کے بجائے وہ اس دوران مثبت باتوں اور دفتری امور کے علاوہ گھریلوں کاموں میں بھی خود کو مصروف رکھتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ سارا دن بچوں کے ساتھ مشغول رہنے کے ساتھ ساتھ وہ دن سلائی کڑھائی اور کچن میں وہ کھانے بنانے میں گزارتی ہیں جن کا انہیں شوق ہے لیکن عام دنوں میں وقت نہیں نکال سکتیں۔

لبنیٰ حئی نے کہا ‘پہلے میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر کورونا کے حوالے سے بہت خبریں دیکھتی اور سنتی تھی جس کی وجہ سے ذہن پر کافی منفی اثر پڑا تھا لیکن اب بہت کم ایسی خبریں دیکھتی ہوں اور رات کو تو بالکل بھی نہیں دیکھتی، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں احتیاطی تدابیر پر سمجھوتہ کروں گی۔’

خواتین کے بہ نسبت مرد حضرات کے لئے گھروں پر محصور ہونا زیادہ کٹھن ہوتا ہے اور پھر شفیق گگیانی جیسے نوجوانوں کے لئے تو ایسا کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔

شفیق گگیانی پروفیشن کے لحاظ سے انٹرپرینیور یعنی کاروباری ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک سماجی کارکن بھی ہیں اور ان کے دوستوں کا سرکل بھی بہت وسیع ہے۔

شفیق گگیانی گزشتہ دس دن میں صرف ایک بار اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیلف آئسولیشن میں دوستوں سے صرف ٹیلی فون اور وٹس ایپ مسیجز پر ہی بات ہوتی ہے۔

شفیق گگیانی اس دوران خود کو مصروف رکھنے کے لئے آن لائن الیکٹرانکس روبوٹکس کا ہنر سیکھ رہے ہیں اور اپنے گھر کے بجلی کے سارے پرانے نظام میں بھی کسی حد تک جدت لا چکے ہیں۔

شفیق گگیانی اس دوران بھی سماجی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کی ہولناکی کے حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شفیق گگیانی کی طرح عبدالروف یوسفزئی کا حلقہ احباب بھی کافی وسیع ہے لیکن پچھلے ایک ہفتے سے وہ سب سے ایک اپارٹمنٹ تک محدود ہیں۔ عبدالروف یوسفزئی پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں لیکن ان کی خوش قسمتی کہ ٹی وی کے ساتھ وابستہ نہیں بلکہ ایک مقامی اخبار اور انٹرنیشنل آن لائن ادارے کے لئے لکھتے ہیں۔

عبدالروف کہتے ہیں کہ صحافت میں 12، 13 سال گزارنے کے بعد ان کے اتنے کنٹیکٹس بن گئے ہیں کہ زیادہ تر نیوز رپورٹس کے لئے انٹرویوز اور معلومات وہ موبائل فون پر ہی حاصل کرلیتے ہیں۔

سیلف آئسولیشن میں خود کو مصروف رکھنے کے عبدالروف یوسفزئی نے مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں جمع کی ہے اور انہیں پڑھ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کم از کم 2 مزید ہفتوں تک وہ اس اپارٹمنٹ سے نہیں نکلیں گے اور اس دوران پختونوں کے لیڈر عبدالولی خان کی چار جلدوں پر مشتمل کتاب کو ضرور پڑھیں گے۔

عبدالروف یوسفزئی کے ساتھ اپارٹمنٹ میں بائیومیڈیکل انجینئر نجیب خان نے بھی خود ساختہ تنہائی اختیار کرلی ہے اور اس دوران ٹائم پاس کے لئے وہ موبائل گیمز کھیلتا ہے اور مختلف پاکستانی ڈرامے اور بالی ووڈ فلمیں دیکھتا ہے۔

نجیب نے بھی اپنا زیادہ تر کام موبائل فون پر مشاورت تک محدود کرلیا ہے لیکن بہت مجبوری میں بھی کبھی انہیں ہسپتال کسی مشین کو ٹھیک کرنے کے لیے جانا پڑے تو واپسی پر کپڑے بدل کر ایک تھیلے میں ڈال لیتا ہے اور فورا نیم گرم پانی سے نہا لیتا ہے۔

نفسیاتی ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ کورنٹائن یا سیلف آئسولیشن کے دوران کورونا سے متعلق زیادہ خبریں دیکھنے اور سننے سے پرہیز اختیار کرنی چاہیئے کیونکہ اس کا ذہن پر منفی اثر پڑتا ہے جب کہ عبادات سمیت ایسے کاموں اور مشغلوں میں خود کو مصروف رکھنا چاہئے جن سے ذہنی سکون ملتا ہو۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button