فیچرز اور انٹرویو
G
-
اپردیر میں قدرتی مشروم کی پیداوار کیسے سینکڑوں غریب خاندانوں کے روزگارکا ذریعہ بن رہی ہے؟
مشروم کا کاروبار اب ایسا ہے کہ جیسے میں کوئی سونے کا کام کرتا ہوں کیونکہ اب اس میں گذشتہ سالوں کی نسبت اتار چڑھاؤ بہت زیادہ آرہا ہے ۔ اور اسی اتار چڑھاؤ سے کبھی ہمیں فائدہ ہوتا ہے تو کبھی نقصان۔
مزید پڑھیں -
باجوڑ، منتخب بلدیاتی چیئرمین پے درپے استعفیٰ کیوں دے رہے ہیں ؟
جوں جوں وقت گزرتا گیا منتخب نمائندگان کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی مقامی حکومتوں ( بلدیاتی انتخاب ) سے مایوسی ہونے لگے
مزید پڑھیں -
پشاور شہر میں جسم فروشی کا کاروبار کھلے عام، پوچھنے والا کوئی نہیں
ناہید جہانگیر معاشرتی برائیاں ہر دور ہر قوم میں کسی نا کسی شکل میں موجود ہوتی ہیں جو ازل سے ابد تک جاری رہے گی ۔ کراچی اور لاہور میں جسم فروشی کے بارے میں سنا تھا لیکن پشاور جہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سخت روایات کی وجہ سے یہ کاروبار اتنا آسان نہیں…
مزید پڑھیں -
نوشہرہ: صحافی حسن زیب قتل،حکومت صحافیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے، صحافی برادری
گزشتہ ایک ماہ کے دوران صحافی کے قتل کا یہ دوسرا واقعہ ہے گو کہ ان واقعات کے محرکات کا علم نہیں۔ یہاں پر کافی سارے مسلح تنظمییں ہیں جو صحافیوں کو غیر جانبدار رپورٹنگ پر نشانہ بناتی ہیں
مزید پڑھیں -
کال، پیغامات ریکارڈ کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے: وکلاء، صحافی برہم
قانونی ماہرین اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ اعلامیہ انسانی بنیادی حقوق، تحقیقاتی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ہے۔
مزید پڑھیں -
ضلع مردان کے بیشتر خواجہ سرا شناختی کارڈ کے حق سے آخر محروم کیوں ہیں؟
جب میں اپنا شناختی کارڈ بنا رہی تھی تو میرے بھائی نے کہا کہ تم مجھے 50 ہزار روپے دو تب ہی میں دستخط کروں گا ۔میرے 50 ہزار دینے پر میرا شناختی کارڈ بن گیا جس کی بنا پر اب زندگی میں تھوڑی سی آسانی پیدا ہو گئی ہے
مزید پڑھیں -
ضم اضلاع میں آج بھی خواتین کو وراثتی حقوق حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا۔
سعیدہ سلارزئ پشاور یونیورسٹی کی بی ایس کی طالبہ اور ضلع خیبر کی رہائشی ماریہ آفریدی کا ماننا ہے کہ قبائلی اضلاع کی خواتین اب وراثت میں اپنے جائز حصے کے بارے میں زیادہ باشعور ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے ان حقوق کے حصول کے لیے آواز اٹھانا شروع کر دی ہے۔ جسے قبائلی…
مزید پڑھیں -
دریائے سوات پر دفعہ 144 کا نفاذ اور عوام کا ردعمل، کیا پابندی ہی ہر مسئلے کا حل ہے؟
اگر ضلعی انتظامیہ ایسی چند محفوظ مقامات کی نشاندہی کرے جہاں لوگوں کے ڈوبنے کا خطرہ موجود نہ ہو وہاں مقامی لوگ گرمی کا زور کم کرنے کے لئے نہائے اور اسی کے ساتھ ملک کے گرم علاقوں سے آئے ہوئے سیاح بھی دریائے سوات کے ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہو سکے۔
مزید پڑھیں -
خیبر پختونخوا میں دس سالہ تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود بھی گھوسٹ اساتذہ کے موجود ہونے کا انکشاف
شمالی وزیرستان میں سب سے زیادہ سکول غیر فعال اساتذہ غیر حاضر رہ کر کاروبار یا بیرون ملک ڈرائیونگ کرتے ہیں جبکہ سرکاری تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں