اندھی تقلید اور منزل؟ ایں خیال است و محال است!
بحراللہ آفریدی
گزشتہ دن لاہور کی ایک پبلشر کمپنی کی طرف سے پشاور میں منعقدہ ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ سیشن تعلیمی نصاب اور تعلیمی اداروں میں جدید رجحانات اور ٹیکنالوجی سے استفادے کے حوالے سے تھا جس میں بہت مفید باتیں ہوئیں، ان کو بھی ایک آرٹیکل میں سمیٹنے کا ارادہ ہے لیکن پہلے ہمارے معاشرتی رجحانات پر کچھ بات ہو جائے۔
یہ سیشن پشاور شہر کے ایک شادی ہال میں صبح دس بجے شروع ہوا۔ عموماََ شادی ہالوں میں جو پروگرامات صبح کے وقت منعقد ہوتے ہیں تو شادی ہال انتظامیہ ہر میز پر کچھ ٹافیاں رکھ دیتی ہے تاکہ لنچ میں دیر ہو جائے اور کسی کو بھوک کا احساس ہونے لگے تو وہ یہ ٹافی کھا کر کچھ وقت کیلئے اپنی بھوک رفع کرے۔ اب جس ٹیبل کے گرد میں بیٹھا تھا اس کے گرد اور بھی چار پانچ بندے بیٹھے تھے اور مجھ سے آگے جو ٹیبل تھی، اس کے گرد بھی پانچ چھ بندے بیٹھے تھے، ان میں سے کسی کو بھی میں نہیں جانتا تھا۔
جیسے ہی مقرر نے اپنی بات شروع کی تو آگے ٹیبل پر موجود ایک صاحب نے ٹافیوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر ایک کو اٹھا لیا۔ میں سمھجا شاید اس نے صبح کا ناشتہ نہیں کیا اور ابھی سے بھوک کا احساس ہونے لگا ہے۔ اس کے چند سیکنڈ بعد ان کی اتباع میں ساتھ بیٹھے دوسرے صاحب نے بھی ایک پروقار مگر خاموشی سے ہاتھ بڑھا کر ایک ٹافی کو اڑا لیا۔
جب ان دونوں کو قارون کا خزانہ لوٹتے ہوٸے دیکھا تو تیسرے صاحب کو تو گویا خارش ہونے لگی لیکن اس نے بھی وقار کا خیال رکھتے ہوٸے اپنے تئیں غیرمحسوس طریقے سے معرکہ سرانجام دینے کی کوشش فرماٸی۔ اب چوتھے اور پانچویں صاحب کو تو گویا قانونی حق حاصل ہوا کیونکہ انھوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو ڈالے۔
میری توجہ تو مقرر کی جانب تھی لیکن چونکہ یہ میدانِ کارزار مقرر کی سمت میں ہی واقع تھا تو اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی میری نگاہیں سامنے ٹیبل پر جاری معرکے پر مرکوز تھیں۔ ان حضرات کے مالِ مفت اڑانے کا اثر ہماری ٹیبل تک بھی پہنچ گیا۔ میرے قریب ایک دبلے پتلے صاحب تشریف فرما تھے، انہوں نے بھی کافی گھورنے کے بعد بالآخر ٹیبل کے بیچ پڑے ٹافیوں کے ڈبے تک ہاتھ دراز کر ہی دیا۔ بھاٸی کی اس حرکت کو اس کے جسمانی خدوحال اور سامنے انجام پانے والے معرکے کے اثرات کی وجہ سے جسٹیفاٸی کیا کہ چلو ان کو بہرحال ضرورت ہو گی لیکن کیا دیکتھا ہوں کہ یہاں بھی وہی ریہرسل، اب یہ پہلے دس یا پندرہ منٹ کی کارگزاری ہے اور ابھی کئی گھنٹوں کا سیشن باقی ہے۔
میں سوچ رہا تھا اگر لنچ بہت ہی لیٹ ہو جاٸے اور واقعی بھوک سے نڈھال ہونے کی حد تک بات بڑھے تو پھر ایک آدھ ٹافی سے اگر بندہ استفادہ کرے تو اخلاقی حق بنتا ہے لیکن یہاں پر تو بغیر ضرورت کے محض ایک دوسرے کی تقلید میں منہ میٹھا کرنے کی رسم چل پڑی۔
میں اسی خیال میں مقرر کی جانب متوجہ تھا کہ کچھ ہی دیر بعد اس پہلے والے صاحب نے ایک اور ٹافی کو تاریک منزل پر روانہ کر دیا۔ اسے دیکھ کر ایک بار پھر باقیوں کی رگوں میں گویا کہ بجلیاں دوڑ گئیں۔ یکے بعد دیگرے سب ہی نے باری باری ڈبے پر ہاتھ پھیرتے ہوٸے ڈبے کو کنگال کر کے رکھ دیا۔ میں نے ایک ترچھی نگاہ جب ڈبے پر ڈالی تو ڈبہ بیچارہ خالی نظر آیا۔ مجھے محسوس ہوا گویا ڈبہ مجھے اپنی بے بسی اور معاشرے کی بے حسی کی فریاد سنانے لگا ہے۔ لیکن میرا شکوہ سمجھنے والا کوٸی نہیں تھا کیونکہ ان ظالموں نے میرے لئے ایک ٹافی بھی نہیں چھوڑی تھی۔
خیر مقررین کے لیکچرز سنتے سنتے لنچ کا وقت آ ہی پہنچا۔ ویٹرز نے کھانے ٹیبل پر لگا دیئے۔ میں نے اپنے حساب سے ایک پلیٹ چاول کے ساتھ دو پیس کباب کے لے لئے۔ مجھے دیکھ کر میرے ساتھ بیھٹے دبلے پتلے صاحب نے بھی اتنے ہی چاول کے ساتھ کباب کے دو پیس اٹھاٸے حالانکہ گوشت اور چکن پیس بھی موجود تھے لیکن انھوں نے اپنی ضرورت اور طبیعت دیکھے بغیر بس صرف مجھے ہی فالو کیا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے جانے کے بعد آدھے چاول اور ایک پیس کباب پلیٹ میں ویسے ہی رہ گئے۔
اس مزاحیہ لیکن مبی بر حقیقت تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اندھی تقلید خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ لوگ کسی اور کی اتباع میں بغیر کچھ سوچے سمجھے وہی کچھ دہرا رہے ہوتے ہیں جو وہ دیکھتے یا سنتے ہیں۔ لوگ اس پہ غور ہی نہیں کرتے کہ فلاں کام کرنے یا نہ کرنے کی مجھے کوٸی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔
ہماری روزمرہ سماجی زندگی میں دوسروں کی اندھی تقلید اور دوسروں کی بلاوجہ نقل اتارنے کا رجحان اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس کو بسااوقات لوگ فیشن قرار دے رہے ہوتے ہیں۔
سماجی زندگی کی طرح سیاسی زندگی میں بھی اندھی تقلید عروج تک پہنچ گئی ہے۔ سیاسی کارکنان کہلانے والا طبقہ اپنے اپنے لیڈران کی ہر بات کو حرف آخر سمجھنے لگا ہے۔ اپنے لیڈران کی ہر بات اور ہر عمل کو جسٹیفاٸی کر رہے ہوتے ہیں۔ تجزیہ کرنے، بات کو پرکھنے اور اس پہ غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔
عمران خان کا ریاست مدینہ کے نام پر مخلوط اجتماعات کا انعقاد کرنا اور اسی طرح دیگر بے شمار تضادات ان کے فالورز کے نزدیک بالکل بھی سوالیہ نشان نہیں ہیں۔ آصف زرادری جب اقتدار کے ایوانوں میں کسی بھی طریقے سے دوسروں پہ تن تنہا بھاری ثابت ہو رہا ہوتا ہے یا ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ کی صورت میں جب ان کا بیٹا غیرملکی دوروں پر ملک کے غریب عوام سے انتقام لے رہا ہوتا ہے تو ان کے فالورز پھر بھی ”بھٹو زندہ ہے” کے نعروں میں مگن ہوتے ہیں۔
نواز شریف ووٹ کی عزت کو خود ہی اقتدار کے حصول کی خاطر بے عزت کرتے ہیں اور الیکشن کرانے سے ڈرتے بھی ہیں لیکن ان کے فالورز پھر بھی انہیں شیر سمجھتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان جب ”اسلامی جمہوریت” کو عین امارت یا خلافت قرار دے رہے ہوتے ہیں تو ان کے فالورز ان کی تاٸید میں اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہیں اور جب افغان طالبان امریکی انخلاء کے بعد اسی ”اسلامی جمہوریت” کو کفر قرار دے کر اشرف غنی کے تخت پر قابض ہوتے ہیں تو مولانا موصوف کے فالورز پھر بھی اللہ اکبر کی صداٸیں بلند کرتے ہیں۔ آخر یہ کیسا کھلا تضاد ہے کہ جمہوریت کو اسلامی قرار دینے کی بھی تاٸید اور اس کو کفر قرار دینے کی بھی تاٸید کی جائے۔
پی ٹی ایم کے رہنماء جب نعرے بلند کرتے ہیں کہ ”دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے” تو ان کے فالورز اتنا بھی نہیں سوچتے کہ قیام پاکستان سے پہلے وزیرستان میں دہشت گردی کے پیچھے کون تھا؟ وہ اس پر بھی غور نہیں کرتے کہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قاٸد اعظم محمد علی جناح نے وزیرستان پر جیٹ طیاروں سے بمباری کیوں کرائی تھی؟
اسی طرح اے این پی کے لیڈران جب ”لر او بر” کا نعرہ لگاتے ہیں تو ان کے فالورز محض جذبات میں آ کر فضاٶں میں ”یو افغان” کی گونج پیدا کر دیتے ہیں۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس نعرے نے آج تک پاکستان کے پختونوں کو کیا فاٸدہ دیا ہے؟ اگر دیا ہے تو صرف نقصان ہی دیا ہے کیونکہ یہ نعرہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی نظر میں پاکستان کی وحدت کی مخالفت کی علامت ہے۔ نیز اس نعرے کی پیداٸش میں روسی ایجنسی کے جی بی کا رول بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
مختصر یہ کہ اندھی تقلید معاشروں کو انجان منزلوں کا مسافر بنا دیتی ہے۔ معاشرے تب ہی اپنی منزل کا تعین کر سکتے ہیں جب افراد تنقید، دلیل اور تجزیہ کی خصوصیات سے مالا مال ہوں، ان میں اندھی تقلید، اندھی عقیدت اور فیوریٹ ازم کے جراثیم نہ ہوں۔
ہاں! یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہاں ”فقہی یا شرعی تقلید” مراد نہیں ہے۔ عوام کیلئے آٸمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید بہرحال لازم ہے۔ کسی کو اگر کچھ زیادہ ہی شوق ہو تو وہ آٸمہ سلف میں سے کسی اور کو فالو کرے بشرطیکہ وہ فقیہہ ہو، محدث نہیں کیونکہ فقیہہ تفسیر و حدیث دونوں کا ماہر ہوتا ہے جبکہ محدث صرف احادیث کا، اور اگر کسی کو خود مجتہد بننے کا شوق چڑھا ہو تو وہ الگ معاملہ ہے۔