”انٹرنیٹ کی بندش سے دہشت گردی کی روک تھام کا تاثر غلط ہے”
رفاقت اللہ رزڑوال
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا قبائلی ضلع کرم میں تقریباً 5 سال پہلے سیکورٹی خدشات کے باعث ڈیٹا سروس معطل کی گئی تھی جسے اب پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی اے) نے بحال کر دیا ہے۔
پاکستان کے قومی مواصلاتی ادارے پی ٹی اے نے منگل کو اپنی جاری کردہ پریس میں بتایا کہ سیکورٹی صورتحال کے جائزے کے بعد ضلع کرم میں ڈیٹا سروس بحال کر دی گئی ہے۔
ضلع کرم میں صحافتی امور سرانجام دینے والے صحافی داؤد خان نے بتایا کہ پی ٹی اے کی جانب سے منگل کی صبح کو انٹرنیٹ کی بحالی سے قبل لوگوں نے موبائل پر نظریں مرکوز کی ہوئی تھیں کہ کب انٹرنیٹ کی سروس بحال ہو گی اور دنیا کے ساتھ رابطہ قائم ہو گا مگر کافی انتظار کے بعد سگنلز نہیں آئے اور لوگ مایوس ہو گئے تاہم جیسے ہی شام 4 بجے انٹرنیٹ بحال ہوا اور موبائل پر سگنلز آنا شروع ہوئے تو لوگوں کے چہرے کھل اُٹھے۔
داؤد خان اپر کرم میں رہائش پذیر اور انٹرنیٹ کی بحالی سے خوش ہے، کہتے ہیں ضلع کرم ایک پہاڑی علاقہ ہے اس سے پہلے جب نیوز رپورٹنگ کیلئے وہ لور کرم جاتے تھے تو گھنٹوں کا راستہ طے کرنے کے بعد رپورٹ فائل کرتے جس سے ایک دن ضائع ہو جاتا جس کی وجہ سے ان کی سٹوری کی اہمیت ختم ہو جاتی مگر اب نیٹ کی بحالی سے یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔
ان کے مطابق اسی طرح دیگر صحافی بھی جب کوئی رپورٹ اپنے ادارے کو بھیجتا تھا تو وہ پاڑاچنار شہر یا سدہ بازار سے پی ٹی سی ایل کے ذریعے اپنا کام کر لیتا تھا۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت پی ٹی اے سے لی گئی معلومات کے مطابق سابق فاٹا کے سات قبائلی اضلاع میں سے چھ اضلاع میں ڈیٹا سروس بحال کر دی گئی جس سے تعلیم، صحت، تجارت اور مواصلات سے وابستہ ضروریات پوری کرنے میں مدد ملی گی۔
پی ٹی اے معلومات کے مطابق اس وقت ضلع کرم میں تقریباً پچاس مختلف نجی کمپنیوں کے ٹاورز نصب کرنے پر کام جاری ہے جبکہ پانچ ٹاورز سے تھری جی اور فور جی کے سگنلز بحال کر دیئے گئے ہیں۔
آر ٹی آئی کے تحت حاصل شدہ معلومات میں جب یہ پوچھا گیا کہ باقی ٹاورز کیوں نصب نہیں کئے گئے ہیں تو کہا گیا کہ امسال 27 جون کو ضلع کرم کے علاقہ وسطی کرم میں نجی موبائل ٹاور کی تنصیب میں کام کرنے والے دس مزدوروں کو نامعلوم افراد نے اغواء کیا تھا جن میں سے چھ کو قتل کیا گیا تھا تو اس وجہ سے باقی ٹاورز پر کام رک گیا۔
موصول شُدہ معلومات میں کہا گیا کہ اگر ضلع کرم میں پچاس ٹاورز نصب کئے گئے تو کوئی بھی گھر ایسا نہیں بچے گا جہاں پر انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہو گی بشرطیکہ حکومت ٹیکنیکل ماہرین اور کاریگروں کو تحفظ فراہم کرے۔
معیشت اور انٹرنیٹ تک رسائی کا جائزہ لینے والے ادارے دی اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی 2020 میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ تک رسائی، استطاعت اور خدمات کی دستیابی کی مد میں پاکستان 120 ممالک میں 90ویں نمبر ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 37 فیصد مرد اور 19 فیصد خواتین کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جن کے درمیان 65 فیصد کی فرق دکھائی گئی ہے جبکہ موبائیل تک رسائی کی مد میں مردوں اور خواتین کے درمیان 55 فیصد کا فرق بتایا گیا ہے۔
ضلع کرم سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ اور ڈیجیٹل میڈیا کیلئے مواد فراہم کرنے والی تارا اورکزئی کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی بندش سے تمام لیکچرز آن لائن شروع ہوئے لیکن انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے اُن کی تعلیم سخت متاثر ہوئی جس کیلئے وہ سدہ بازار میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں منتقل ہوئی۔
انٹرنیٹ کی بحالی پر کہتی ہے "اب میں گھر بیٹھے تھری جی استعمال کرتی ہوں، سگنلز کمزور ہیں مگر خوشی ہے کہ انٹرنیٹ شروع ہوئی”، انہوں نے کہا کہ انہوں نے ابھی ایک بلاگ لکھا اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے ادارے کو بھیجا جو انکے لئے خوشی کا لمحہ ہے۔
تارا کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز انٹرنیٹ کی بحالی کی وجہ سے دنیا سے رابطہ رکھنے کی قابل ہو گئی ہو جس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنی تعلیمی ضروریات پوری کر سکتی ہے بلکہ حالات حاضرہ سے بھی باخبر رہے گی۔
اورکزئی کے مطابق ‘ایک تو یہاں پر سکولوں کی شرح کم ہے تو دوسری طرف جو بچے سکول یا کالج پڑھ رہے ہیں تو انٹرنیٹ کی عدم سہولت کی وجہ سے وہ معیاری اور جدید تقاضوں کے عین مطابق علم حاصل نہیں کر سکتے لیکن شائد اب انہیں تعلیم کے حصول میں انٹرنیٹ کی بحالی مدد فراہم کرے۔”
پاکستان کے حکومت نے ضلع کرم میں سال 2016 میں انٹرنیٹ کو سیکورٹی رسک قرار دے کر ختم کر دیا تھا لیکن دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر سالہا سال انٹرنیٹ کی بندش کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں، کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کمیونیکیشن کا ایک اہم ذریعہ ہے اور یہ خدمات حکومت کی اجازت سے ہی استعمال کی جاتی ہے۔
بریگیڈیئر سید نذیر سے جب پوچھا گیا کہ انٹرنیٹ کیسے سیکورٹی کیلئے خطرہ ہو سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ بیشتر اوقات میں محرم الحرام کے جلوسوں، سیاسی جلسوں اور دیگر اہم اجلاسوں کے دوران انٹرنیٹ کی سہولت بند کی جاتی ہے جس کے پیچھے سیکورٹی اداروں کو خدشتہ ہوتا ہے کہ ‘ہو سکتا ہے کہ اس دوران کوئی ایسی تصاویر، ویڈیوز یا پیغامات مشتہر ہو جائیں جس سے علاقے کا امن خراب ہو سکتا ہے اور مزید نقصان پیدا ہو جائے۔’
انہوں نے کہا کہ بعض اوقات سیکورٹی ادارے گشت پر نکلتے ہیں یا کسی جگہ پر چھاپہ مار رہے ہیں یا وہ اپنے کیمپ سے نکل رہے ہوں تو غیرریاستی عناصر سے ان کی معلومات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کا خدشہ ہوتا ہے جس کی روک تھام کیلئے انٹرنیٹ سروس کا بند ہونا ضروری ہوتا ہے۔
لیکن ان کا کہنا ہے ‘یہ ایک غلط بیانیہ بن چکا ہے کہ سالہا سال یا مہینوں کیلئے انٹرنیٹ بند رکھا جائے، ہاں البتہ جب کہیں پر سیکورٹی موومنٹ یا دیگر حساس اقدام ہو رہا ہو تو انٹرنیٹ بند کرنا چاہئے لیکن یہ کہنا کہ انٹرنیٹ کی بندش سے ہم جرائم یا دہشت گردی کو روک پائیں گے تو یہ غلط ہے کیونکہ اب غیرریاستی عناصر کے پاس اس سے بھی زیادہ جدید وسائل موجود ہیں۔”
گزشتہ سال اپریل میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویج کے ایک طالبعلم سید محمد کی جانب سے دائرکردہ پٹیشن پر سماعت ہوئی تھی جس پر عدالت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی اے کو سابق قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کی بحالی کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ انٹرنیٹ تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور آئین کی آرٹیکل-19 آزادی اظہار رائے کی حق کی تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔
جون 2021 میں وزارت داخلہ کی جانب سے عدالت کو کہا گیا تھا قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ کی بحالی کا شیڈول تیار کیا گیا جو پی ٹی اے کو بھی فراہم کیا گیا ہے، سروس کا کام جلد شروع کیا جائے گا اور تمام علاقوں کو بتدریج سال کے اختتام تک سروس فراہم کر دی جائے گی۔
ٹی این این کی معلومات کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا کے چھ قبائلی اضلاع مہمند، باجوڑ، خیبر، کرم، اورکزئی اور شمالی وزیرستان میں انٹرنیٹ کی گئی ہے جبکہ جنوبی وزیرستان میں تاحال عوام انٹرنیٹ کی خدمات کی حصول سے محروم ہیں جس کی وجہ بھی سیکورٹی رسک بتائی جاتی ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم بولو بی کے ڈائریکٹر اُسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونے کیلئے انٹرنیٹ کا استعمال بنیادی ضرورت ہے، جس کی بدولت طلباء ریسرچ، بچے کارٹون، عام لوگ صحت عامہ کی بہتری کی مواد حاصل کر سکتے ہیں اور علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے مواد بھی شیئر کر سکتے ہیں۔
اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے ساتھ سیکورٹی حالات کو نازک قرار دینا بے بنیاد بات ہے بلکہ انٹرنیٹ کی بحالی کے ساتھ ہی عوام دہشت گردی یا دیگر جرائم کے بارے میں سیکورٹی اداروں کو خبردار کر سکتے ہیں۔