عوام کی آوازکالم

سپریم کورٹ نئی تقسیم کے نشانے پر!

ابراہیم خان

عدالت عظمی پاکستان نے صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو تحلیل شدہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے کا حکم جاری کردیا تھا۔ حالات کچھ بھی ہوں اگر مملکت خداداد پاکستان میں آئین کی حکمرانی قائم رہنی ہے تو پھر اس حکم نامے پر من وعن عملدرآمد کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں لیکن عملی طور پر اس معاملے میں حالات بے یقینی کا شکار ہیں۔

اگر حالات معمول کے مطابق ہوتے تو آئین کے تحت اس حکم پر بلا چوں چرا عملدرآمد ہوجاتا لیکن اب حالت یہ ہے کہ وفاقی حکومت خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہے۔ حکومتی وزراء جن میں وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ تو اس قدر بے باکانہ گفتگو کررہے ہیں کہ ایسا دکھائی ہی نہیں دیتا کہ وہ عدالت عظمی کے بارے میں بات کر رہے ہوں۔ اس فہرست میں اب پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی زیادہ شدومد کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔

مولانا سپریم کورٹ کی طرف سے مذاکرات اور وہ بھی فوری مذاکرات پر اس قدر سیخ پا ہوگئے کہ انہوں نے عدالت عظمیٰ سے بڑی بے تکلفی سے پوچھ لیا کہ آپ سپریم کورٹ ہیں یا پنچائیت؟ اسی طرح وفاقی حکومت کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بھی مولانا فضل الرحمن کی دھواں دار پریس کانفرنس سے پہلے عدلیہ کی خوب دھول اڑائی جبکہ جو کسر باقی بچی تھی وہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے یہ کہہ کر پوری کردی کہ بندوق کے زور پران سے کوئی مذاکرات نہیں کروا سکتا۔ انہوں نے ایک بار پھر وہی پرانا موقف دوہرایا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اقلیتی فیصلہ تھا۔ اوپر تلے ہونے والی ان تین پریس کانفرنسز سے ایک بات تو طے ہوگئی ہے کہ پی ڈی ایم، پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے موڈ میں نہیں۔

یہ صورتحال دوسری طرف بھی ایسی ہی ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خاص طور پر حکومت سے صرف اپنے مطلب کے حصے کے مذاکرات چاہتے ہیں اس سے اضافی کسی مسئلے کو وہ چھیڑنا تک نہیں چاہتے۔ اس اعتبار سے مذاکرات کیلئے سنجیدگی کا جو پیمانہ ہونا چاہیے اس کا فقدان بہت واضح ہے۔ وفاقی حکومت کے اتحادیوں میں بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا مذاکرات کی طرف جھکاؤ ہے لیکن جمعرات کو بلاول نے یہ تاثر زائل کرکے واضح کردیا کہ سپریم کورٹ سے ٹکراؤ کی پالیسی کے معاملے میں پیپلز پارٹی بھی اپنے باقی پارٹنرز کے ساتھ کھڑی ہے۔ جمعرات کے روز ان اتحادیوں کو ایک دوسرے سے ملنے والی ہلہ شیری کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمعہ کے دن حکومت نے عدالت عظمیٰ کی طرف سے تاحکم ثانی عملدرآمد مؤخر کئے جانے والے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو واضح حکم عدولی کرتے ہوئے باقاعدہ قانون بنا ڈالا۔

اس بل کو عدالت عظمیٰ کی طرف مسترد کرنے کے بعد صدر مملکت نے بھی بل کو دوسری بار واپس بھیج دیا تھا لیکن حکومت نے فوری طور پر اس بل کو قانون بنا ڈالا، ساتھ ہی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے پرنٹنگ کارپوریشن کو گزٹ نوٹیفکیشن کا حکم دے دیا ہے۔

اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بات شروع تو ہوئی تھی دو صوبوں کی تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات کرانے سے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان یہ لڑائی شدید تر ہوتی چلی جائے گی۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود اس بل کو باقاعدہ قانون بنانے کا مقصد یہ ہے کہ اب حکومت اس بل کے تحت لیگی سربراہ نواز شریف سمیت دیگر متاثرہ سیاستدانوں کی نااہلی کیلئے اپیل کا حق استعمال کرنے کی کوشش کرے گی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اس بل پر عمل درآمد روک دیا تھا۔اس سے قبل 13 اپریل کے حکم نامے میں سپریم کورٹ، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بارے میں قرار دے چکی ہے کہ یہ ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر اگلی سماعت 2 مئی کو ہوگی تاہم حکم امتناعی کا اجراء کسی بھی ممکنہ نا قابل تلافی خطرے سے بچنے کے لئے کیا گیا۔ اس حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ حکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔

حکومت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر اس وجہ سے زور دے رہی ہے کہ ایک تو اس قانون کے تحت سو موٹو نوٹس لینےکا اختیار تنہا چیف جسٹس سے لے کر اسے اب اعلیٰ عدلیہ کے تین سینئر ترین ججز کے ہاتھ میں دینا چاہتی ہے تاکہ چیف جسٹس کے اختیارات کم کردئیے جائیں۔ اس بل کے تحت سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے اور اپیل کو کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اور نمٹائے گا جبکہ کمیٹی میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز شامل ہوں گے۔

کمیٹی کا فیصلہ اکثریت رائے سے ہو گا۔ اس ترمیمی بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، بنیادی حقوق سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پرتین یا اس سے زائد ججزکا بینچ بنایا جائے گا، آئین اور قانون سے متعلق کیسز میں بینچ کم از کم 5 ججز پر مشتمل ہو گا۔ بل میں حکومت کیلئے اہم بات یہ ہے کہ بینچ کے فیصلے کے 30 دن کے اندر اس کے خلاف اپیل دائر کی جاسکے گی اور دائر کردہ اپیل 14 روز میں سماعت کے لئے مقرر ہوگی، زیر التواء کیسز میں بھی اپیل کا حق ہوگا۔ نئی قانون سازی کے تحت نواز شریف کو ازخود نوٹس پرہونے والی نا اہلی کی سزا پر اپیل کا حق مل جائےگا تو ساتھ ہی یوسف رضا گیلانی، جہانگیر ترین اور دیگر بھی اپنی نااہلی کے فیصلوں کو چیلنج کرسکیں گے۔ حکومت اب اس قانون کو لے کر آگے بڑھے گی جبکہ سپریم کورٹ پہلے ہی اس کو مسترد کرکے دو مئی کی سماعت کی تاریخ دے چکا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم لیگ ایک بار پھر 1997ء کی یاد تازہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے دو بینچ کرنا چاہتی ہے۔مسلم لیگ کو شائد اپنی تاریخ دوہرانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ اس کے قائدین بڑے سے بڑے کیس کو بھی بریف کیس میں لانے پر ملکہ رکھتے ہیں۔ کل بھی انہیں تارڑ میسر تھے اور آج بھی "تارڑز” دیدہ دل فرش راہ کئے ہیں۔ تازہ معاملے میں مسلم لیگ کو کئی ہم نوا بھی میسر ہیں، جن میں مولانا تو عمران خان کی "محبت” میں اس قدر اسیر ہیں کہ اس معاملے میں کہیں تک بھی جاسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ 2018 کے انتخابات کے فوری بعد مولانا فضل الرحمن اس قدر مضطرب تھے کہ وہ تمام اپوزیشن جماعتوں پر زور دے رہے تھے کہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں۔ ان کے اس مطالبے سے ان کی عمرانی دشمنی واضح ہے اور وہ اسی بہانے مستقبل میں خود کو حق بجانب قرار دلوائیں گے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی جو پاکستان کے آئین کی خالق جماعت ہے وہ آج عطاء عمر بندیال کی مبینہ مخاصمت کا دفاع نہیں کر پائے گی۔ سپریم کورٹ اگر اگلے چند دنوں میں تقسیم ہوا تو پیپلز پارٹی کی رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر جیسی آئین دوست آوازیں کبھی خود کو معاف نہیں کریں گی، جنہوں نے سردست منہ کو تالے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں انتظامیہ ایک اور لیگی وزیراعظم کی سربراہی میں عدلیہ کے ساتھ محاذآرائی کے ذریعے پاکستانی جمہوریت میں ایک اور سیاہ باب رقم کرنے جارہی ہے جو ہر لحاظ سے ملک اور جمہوریت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button